Mazhar-ul-Quran - Al-Ankaboot : 24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
فَمَا كَانَ : سو نہ تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّا : سوائے اَنْ : یہ کہ قَالُوا : انہوں نے کہا اقْتُلُوْهُ : قتل کردو اس کو اَوْ حَرِّقُوْهُ : یا جلا دو اس کو فَاَنْجٰىهُ : سو بچا لیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِنَ النَّارِ : آگ سے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان رکھتے ہیں
تو1 (ابراہیم کے اس کہنے کے بعد) اس کی قوم کو کچھ جواب بن نہ آیا مگر یہ کہ (آپس میں ) کہنے لگے کہ ان کو قتل کر ڈالو یا ان کو جلا دو (چنانچہ جلانے کا سامان ہوا) تو اللہ نے ان کو آگ سے بچا لیا، بیشک اس قصہ میں ضرور نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا مشورہ۔ (ف 1) ان آیتوں میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم کی قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی باتیں سن کر آپس میں کہا حضرت ابراہیم کو مارڈالو یا آگ میں جلادو چناچہ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آگ ہی میں جلانا چاہیے ، تو سب نے مل کر بہت ساری لکڑیاں ایک میدان میں اکٹھی کیں اور ان لکڑیوں کے گرد میں ایک احاطہ کھینچا، پھر ایسی آگ جلائی کہ جس کے شعلے آسمان تک پہنچے ایسی بڑی آگ کبھی نہیں جلی ، پھر انہوں نے ابراہیم کو اس آگ میں ڈال دیا ان کا حامی مددگار اللہ ذوالجلال تھا اس لیے حضرت ابراہیم پر وہ آگ ٹھنڈی اور راحت والی ہوگئی ابراہیم وہاں سے صحیح وسالم نکلے اور کسی جگہ آپ کو تکلیف نہ پہنچی پس ایماندارلوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عجیب عجیب نشانیاں ہیں کہ اس نے ایسے نازک وقت میں اپنے خلیل کی کیسی مدد کی کہ آگ جیسی چیز میں جلانے کی تاثیر باقی نہرہی اور آگ گلزار ہوکرراحت کا سامان بن گئی اور اللہ کے خلیل سے جن لوگوں نے اپنے بتوں کو توڑنے کا بدلہ لینا چاہا تھا وہ لوگ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوئے۔
Top