Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 50
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : نازل کی گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيٰتٌ : نشانیاں مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اس کے رب سے قُلْ : آپ فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَاِنَّمَآ اَنَا : اور اس کے سوا نہیں کہ میں نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : صاف صاف
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں کہہ دو کہ نشانیاں تو خدا ہی کے پاس ہیں اور میں تو کھلم کھلا ہدایت کرنے والا ہوں
50 تا 59۔ مشرکین مکہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سچے رسول ہیں تو کچھ نشانیاں کیوں نہیں دکھاتے اللہ فرماتا ہے تو کہہ دے نشانیاں اللہ کے اختیار میں ہیں اگر اللہ جانتا نشانیاں دیکھ کر تم راہ پر آجاؤ گے تو وہ تم کو نشانیاں بھی دکھا دیتا اس پر کچھ مشکل نہ تھا مگر وہ جانتا ہے کہ تمہارا ارادہ مسخرا پن کا ہے اس لیے وہ تم کو نہیں دکھاتا اور میں تو فقط ڈرانے والا ہوں پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کی وہ جہالت بیان کرتا ہے جس کے سبب سے وہ جو پیغمبر صلعم کی سچائی پر نشانیاں مانگتے تھے حالانکہ قرآن شریف ایسا بڑا معجزہ ہے کہ جس کے مقابلہ سے بڑے بڑے فصیح بلیغ عاجز آگئے اس کا مانند دس سورت کیا بلکہ ایک سورت بھی نہ بناسکے پھر رسول ﷺ کی صداقت میں کبا ایسی کتاب کافی اور بس نہیں ہے اس قرآن میں ایمان والوں کے لیے قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے کا نتیجہ اللہ کی رحمت سے جنت ہے اور اس قرآن میں یہ بھی ہے جو اس کی نافرمانی کرے گا اس پر عذاب ہوگا تو کہہ دے میرے تمہارے درمیان خدا گواہ ہے جو سب جانتا ہے اگر میں جھوٹ کہتا ہونگا تو وہ مجھ سے بدلہ لے گا لیکن وہ تو دن بدن اسلام کو ترقی دے رہا ہے جس سے اسلام کا حق ہونا صاف ظاہر ہے اب اللہ تعالیٰ مشرکوں کی دوسری جہالت بیان کرتا ہے کہ وہ خدا کا عذاب جلد طلب کرتے ہیں ان سے کہہ دیا جائے کہ اگر عذاب کے لیے قیامت کا دن مقرر نہ ہوتا تو بہت جلدان کو عذاب پہنچتا اور البتہ آوے گا ان کو عذاب یکایک بیخبر ی میں اور دوزخ ان کی تاک میں ہے قیامت کے دن جب ان کو دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جاوے گا تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ ثواب عذاب کی جلدی کرنے کا اور انپی اور بد اعمالی کا مزہ چکھواب آگے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ہجرت کا حکم فرماتا ہے کہ جس شہر میں آدمی دین پر پورا نہ چل سکے وہاں سے ہجرت کر کے دوسرے شہر میں چلا جاوے جہاں دین پر پورا چل سکے معتبر سند سے امام احمد نے زبیربن عوام ؓ سے روایت 1 ؎ کی ہے کہ پیغمبر صلعم نے فرمایا سب شہر اللہ کے شہر ہیں اور سب بندے اللہ کے بندے ہیں جہاں تو نیکی کرسکے وہاں قیام کر پہلے پہل بےوطن ہونے میں تنگی معاش کے اندیشہ سے لوگوں کو مکہ کے چھوڑنے میں پس وپیش تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اللہ کی زمین فراخ اور اللہ ہر جگہ رزاق ہے۔ اور کمزور ایمان والوں کو مکہ میں ٹھہر نا مشکل ہوا تو انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی تاکہ وہاں بےخوف اپنے دین پر چلیں وہاں کے بادشاہ بخاشی نے ان کو جگہ دی اور بڑی مدد کی معتبر سند سے مسند امام احمد میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دینی شروع کی تو یہ حبشہ کی ہجرت آنحضرت ﷺ کے حکم سے ہوئی بعد اس کے پیغمبر صلعم اور سب اصحاب نے مدینہ منورہ کو ہجرت کی مدینہ کی ہجرت کا قصہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے 3 ؎ مفصل ہے پھر فرمایا ہر جی کے لیے موت ضرور ہے پھر تم ہمارے پاس آؤ گے اس واسطے تم کو چاہیے کہ اللہ کی بندگی میں رہو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کی جگہ بہشت میں اونچے محل اور نیچے ان کے نہریں ہیں ہمیشہ رہیں گی ان میں یہ اچھا بدلہ ان نیک عمل کرنے والوں کا ہے جنہوں نے دین کے کاموں کی تکلیف اور مخالفوں کی ایذا پر صبر کیا اور دین پر جمے رہے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کہ پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ ؓ اشعری کی یہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ یہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اور معجزوں کے علاوہ مجھ کو قرآن کا معجزہ ایسا دیا گیا ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن میری امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور سب امتوں کے نیک لوگوں سے بڑھ کر ہوگی ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل مکہ میں جو لوگ علم الٰہی کے موافق دوزخ میں جھو کے جانے کے قابل ٹھہر چکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں گئی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائگاں جاتا ہے اور یہی لوگ مسخرا پن کے طور پر قرآن کے سوا اور معجزوں کی خواہش اور عذاب کی جلدی کرتے کرتے اسی گمراہی کی حالت میں دنیا سے اٹھ گئے اور قرآن شریف کی نصیحت کے سبب سے جو لوگ راہ راست پر آئے ان کی تعداد قیامت کے دن سب کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گی۔ صبر یا تو مناہی کی باتوں سے بچنے پر ہوتا ہے یا جن باتوں کے بجالانے کا شرع میں حکم ہے اس کے بجا لانے میں آدمی کو جو تکلیف ہو اس پر صبر ضروری ہے مثلا جیسے جاڑے کے وضو یا گرمی کے روزہ کی تکلیف یا صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے مثلا جیسے کمزور مسلمانوں کو مکہ میں مشرکوں کے ستانے کی مصیبت درپیش تھی ان آیتوں میں ہر طرح کے صبر کے اجر کا ذکر ہے صبر کے اجر کا پورا بھروسہ جب تک آدمی اللہ تعالیٰ پر نہ رکھے تو اس سے صبر نہیں ہوسکتا اسی واسطے صبر کے ساتھ تو کل کا ذکر فرمایا تو کل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر کام کو تقدیر الٰہی اور مرضی الٰہی پر اسی طرح چھوڑ دیوے کہ اسباب دنیاوی کو کام میں لاوے مگر انجام ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر رکھ کر تکلیف کے وقت صبر اور راحت کے وقت شکر کرے صحیح مسلم میں صہیب ؓ رومی سے روایت 1 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تقدیر الٰہی پر شاکر رہنے والے ایماندار شخص کی ہر طرح بہتری ہے تکلیف کے وقت صبر کا اجر ہے اور راحت کے وقت شکر گزاری کا بدلہ طبرانی کبیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جب صابر لوگوں کو بےحساب اجر دیا جائے گا تو بےصبر لوگ آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کے جسم کی بوٹیاں کوئی قینچی سے کاٹتا اور وہ اس تکلیف پر صبر کرتے۔ یہ حدیث صبر کے اچھے اجر اور صبر کی ترغیب کی گویا تفسیر ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجاعتہ بن الزبیر ہے جب کو بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام احمد نے اس کو معتبر کہا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسی اشعری ؓ کی حدیث جو ابھی گزری جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کے اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے اس حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں اچھے ٹھہر چکے ہیں ان کو قرآن کی نصیحت نے ایسا ہی فائدہ دیا جیسے اچھی زمین میں مینہ کے پانی سے فائدہ ہوتا ہے اور اسی فائدہ کے سب سے قیامت کے دن وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قابل قرار پائے اس لیے فرمایا قرآن کے ماننے والوں کے حق میں یہ قرآن ایک رحمت ہے اسی طرح علم الٰہی میں جو لوگ بد قرار پاچکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں گئی جس طرح بوری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اسی واسطے وہ لوگ شق القمر جیسا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی مسخرا پن کے طور پر اور معجزوں کی فرمائش اور عذاب الٰہی کی جلدی کرتے کرتے بدر کی لڑائی میں ان میں کے بڑے بڑے سرکش دنیا سے اٹھ گئے اور مرتے ہی وہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آگیا جس کی جیتے جی یہ لوگ جلدی کرتے تھے چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور پھر ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کا وعدہ سچا پا لیا ابن ماجہ کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لیے ایک ٹھکانہ جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے یہ منکر حشر مشرک لوگ جب ہمیشہ کو دوزخ میں جا پڑیں گے تو ان کی جگہ جو جنت میں خالی رہ جائے گی وہ بھی جنتیوں کو مل جائے گی یہ حدیث اولائک ھم الخسرون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنا جنت کا ٹھکانہہ اپنے ہاتھ سے کھودیا اس واسطے یہ لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 419 ج 3 الدر المنثور ص 149 ج 5 ) (2 ؎ فتح الباری ص 446 ج 3 باب ہجرۃ الجشتہ۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری ص 552 ج 1 باب ہجرۃ النبی ﷺ و اصحابہ الی المدنیۃ) (1 ؎ مشکوٰۃ ص 452 باب التوکل والصبر فصل اول) (1 ؎ الترغیب والتر ہیب ص 282 ج 4 عنوان الترغیب فی الصبر الخ۔ )
Top