Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 71
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ۚ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر سَاَلْتَهُمْ : تم پوچھو ان سے مَّنْ خَلَقَ : کس نے بنایا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا (کام میں لگایا) الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پھر کہاں يُؤْفَكُوْنَ : وہ الٹے پھرے جاتے ہیں
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا ؟ تو کہہ دیں گے خدا نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں ؟
جب مشرکوں نے مسلمانوں کو فقر کی عار دلائی اور کہا : اگر تم حق پر ہوتے تو تم فقراء نہ ہوتے یہ ملمع سازی تھی، کفار میں بھی فقراء تھے اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو زائل فرمایا : اس طرح اس کا قول جس نے یہ کہا : اگر ہم ہجرت کریں تو ہم ایسی کوئی چیز نہ پائیں جس کو ہم خرچ کریں، یعنی جب تم نے اس چیز کا اعتراف کرلیا کہ اللہ تعالیٰ ان اشیاء کا خالق ہے تو تم رزق میں کیسے شک کرتے ہو جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کی تخلیق ہے تو وہ بندے کو رزق دینے سے عاجز نہیں۔ اسی وجہ سے اپنے اس ارشاد کے ساتھ اس کو ملایا ہے : تم کیسے میری توحید کا انکار کرو گے اور میری عبادت سے پھرو گے ؟ یعنی ایمان اور کفر کے ساتھ رزق کا امر مختلف نہیں ہوت رزق میں وسعت اور اس میں کمی اس کی جانب سے ہے اس لئے فقر کی وجہ سے عار نہیں دلائی جاسکتی۔ ہر شے قضاو قدر کے ساتھ ہے وہ تمہارے احوال اور امور سے آگاہ ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ مال میں کمی یا وسعت جو مناسب ہے اس کے بارے میں وہ جانتا ہے۔
Top