Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 9
اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
اَمَّنْ : یا جو هُوَ : وہ قَانِتٌ : عبادت کرنے والا اٰنَآءَ الَّيْلِ : گھڑیوں میں رات کی سَاجِدًا : سجدہ کرنے والا وَّقَآئِمًا : اور قیام کرنے والا يَّحْذَرُ : وہ ڈرتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَيَرْجُوْا : اور امید رکھتا ہے رَحْمَةَ : رحمت رَبِّهٖ ۭ : اپنا رب قُلْ : فرما دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْلَمُوْنَ : وہ علم رکھتے ہیں وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ : جو علم نہیں رکھتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : نصیحت قبول کرتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
(بھلا مشرک اچھا ہے) یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں
9۔ مشرکین مکہ حشر کے قائل نہیں تھے۔ اس لئے وہ یہ کہتے تھے کہ جینا اور مرنا فقط یہی دنیا کی زندگی اور موت ہے۔ عمر پوری ہوجانے کے بعد جب آدمی مر کر خاک ہوگیا تو پھر کچھ بھی نہیں۔ سورة الجاثیہ میں مشرکوں کے اس قول کی زیادہ تفصیل آوے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے قول کا جواب کئی طرح سے قرآن شریف میں دیا ہے۔ اس آیت میں مشرکوں کے اس قول کا جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہ مشرک کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد پھر کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسا ہو تو جو لوگ ہر وقت اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اور اس کے اجر کی اللہ سے توقع رکھتے ہیں۔ اور دنیا میں ان کا یہ کام اس لئے پورا نہیں ہوا کہ اس طرح کے اکثر لوگوں کی زندگی بھی کچھ خوشحالی سے نہیں گزری۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کی خالص عبادت کے منکر ہیں۔ اللہ کے کلام اور اللہ کے رسول کا جھٹلانا ان کا رات دن کا مشغلہ ہے۔ اور دنیا میں بھی اس کی زندگی خوشحالی سے گزرتی ہے۔ اب ان دونوں گروہ کو ایک حالت پر چھوڑ دینا تو ایسی بےانصافی ہے۔ کہ خود یہ لوگ بھی فرمانبردار اور نافرمان غلاموں کے حق میں اس کو جائز نہیں رکھتے پھر اللہ تعالیٰ کے انصاف پر یہ دھبہ کیوں لگاتے ہیں کہ اس کی بارگاہ میں نہ فرمانبرداری کا کچھ ثمرہ ہے۔ نہ نافرمانی کی کچھ پرسش اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اسی ارادہ سے پیدا کیا ہے۔ کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد ایک دوسرا جہاں نیک و بد کی جزا و سزا کا پیدا کیا جاوے۔ جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ بڑے نادان ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ دنیا میں جو کام کرتے ہیں اس کا نتیجہ دل میں سوچ لیتے ہیں۔ مثلاً تجارت کرتے ہیں فائدہ حاصل کرنے کے لئے کھیتی کرتے ہیں اناج ہاتھ آنے کو باغ لگاتے ہیں میوہ کھانے کے لئے پھر کیا ان کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے کا اتنا بڑا کام یوں ہی بلا نتیجہ کیا ہے۔ ان مشرکوں کے قول کے موافق جس طرح اہل دنیا مر کر خاک میں مل جاویں گے۔ تو کیا دنیا کے پیدا کرنے کا نتیجہ بھی خاک میں مل جاوے گا نہیں نہیں مرنے کے بعد جیسا دنیا کے پیدا کرنے کا نتیجہ ان کی آنکھوں کے سامنے آوے گا۔ تو اس وقت یہ لوگ اپنی اس نادانی پر بہت پچھتاویں گے۔ مگر وہ بےوقت کا پچھتانا کچھ ان کے کام نہ آوے گا۔ صحیح مسلم 2 ؎ ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے منکر حشر لوگ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو وہ نعمتیں یاد دلاوے گا جو انہیں دنیا میں دی گئی تھیں بعد اس کے اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پوچھے گا کہ جس اللہ نے یہ سب نعمتیں پیدا کی تھیں۔ اس کے رو برو کھڑے ہو کر حساب و کتاب کا بھی تمہارے دل میں کبھی خیال گزرا تھا۔ وہ لوگ کہیں گے کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماوے گا کہ جس طرح تم لوگوں نے میرے سامنے کھڑے ہونے کو دنیا میں بھلا دیا۔ اس طرح آج میں نے بھی تم کو رحمت کی یاد سے بھلا دیا اور نظر رحمت سے دور ڈال دیا۔ اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنی نظر رحمت سے دور ڈال دیوے گا اس کا سوا دوزخ کے اور کہاں ٹھکانا ہے یہ حدیث منکرین حشر کے انجام کی گویا تفسیر ہے۔ (2 ؎ صحیح مسلم فصد فی بیان ان الاعضاء منطقۃ شاھدۃ یوم القیمۃ ص 409 ج 2)
Top