Baseerat-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمان کو ہم نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے اور بیشک ہم بڑی وسیع قدرت رکھنے والے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 47 تا 55 الماھدون بچھانے والے۔ فروآ دوڑو۔ بھاگو۔ اتواصوا کیا انہوں نے آپس میں وصیت کی ہے۔ طاغون سرکش اور ضدی لوگ۔ تشریح : آیت نمبر 47 تا 55 انبیاء کرام کی عظمت اور ان کی دعوت توحید کو مان کر ایمان لانے والوں کی نجات اور کفر و شرک، ظلم و زیادتی کرنے والوں کی تباہی و بربادی کے بعد زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت و طاقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ہی آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا ہے اور ہم ہی اس سکڑی ہوئی زمین کو آہستہ آہستہ پھیلاتے چلا جا رہے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا خاکہ ہے جس میں ہم ہر آن نئے سے نیارنگ بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ زمین میں بھی ہماری قدرت کے بیشمار نمونے موجود ہیں اس میں انسانوں کے لئے راحت و آرام کے ہر طرح کے اسباب پیدا کئے گئے ہیں۔ نر اور مادہ، مرد اور عورت، مثبت اور منفی ہر طرح کے جوڑے بنا کر اس تخلیق کی تکمیل کر رہے ہیں تاکہ قیامت تک اس کائنات کا پھیلائو بڑھتا ہی چلا جائے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ ایک آدمی کائنات کی سچائیوں پر غور و فکر کر کے اس کائنات کے مالک پر ایمان لے آئے۔ فرمایا اے لوگو ! ایسے خالق ومالک اللہ ہی کی طرف دوڑو یعنی تمہاری زندگی کی دوڑ صرف دنیا ہی تک نہ ہو بلکہ توبہ کر کے اللہ کی طرف آ جائو۔ حضرت ابن عباس نے اس جملے کا مطلب یہی بتایا ہے کہ اپنے گناہوں سے بھاگ کر اسی ایک خالق ومالک اللہ کی طرف دوڑو۔ حضرت ابوبکر و راق اور حضرت جنید بغدادی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ نفس و شیطان گناہوں کی طرف دعوت دے کر آدمی کو بہکاتے ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ شیطان سے بچ کر اللہ کی پناہ حاصل کرلے تاکہ اللہ اس کو ہر ایک شر سے بچا لے۔ (قرطبی) نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تمہیں اللہ کے عذاب سے اگٓاہ کردیا ہے اور کھول کھول کر یہ بتا دیا ہے کہ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ دوسرے معبود نہ گھڑو۔ یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ برسوں سے اپنے غلط عقیدوں پر چمٹے ہوئے لوگوں سے آپ یہ فرما دیں کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ اس کی ذات اور صفات میں کسی کو کسی طرح شریک نہ کریں اس پر وہ آپ کو ستائیں گے اور جس طرح آپ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کو جادوگر اور دیوانہ کہتے تھے آپ کو بھی اسی طرح کہیں گے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے جس طرح آپ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کو جادوگر اور دیوانہ کہتے تھے آپ کو بھی اسی طرح کہیں گے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ کفار اور گذرے ہوئے نافرمان لوگوں کی ذہنیت ایک جیسی ہے گویا وہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب کھچ اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان ہیں آپ ایسے لوگوں کی پرواہ نہ کیجیے۔ ان نادانوں سے اپنے آپ کو الگ رکھئے اور آپ ان کی باتوں پر کسی طرح کا رنج و غم نہ کیجیے آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اللہ کا دین ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیے۔ اس سے فائدہ تو وہی اٹھائیں گے جو اہل ایمان ہیں۔ کفار و مشرکین کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہ ہر سچائی کو جان بوجھ کر ٹھکراتے ہی رہیں گے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ سے یہ فرما رہے ہیں کہ اگر آپ نے ان کی باتوں پر دھیان دیا اور مایوس ہو گئیت و اس سے ان کفار کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اہل ایمان جو فرماں برداری میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ مایوس ہوجائیں گے لہٰذا آپ اپنے مقصد اور مشن کو اسی طرح جاری رکھئے۔
Top