Tafseer-e-Haqqani - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمان کو ہم نے قدرت سے بنایا اور ہم وسیع قدرت والے ہیں
ترکیب : والسماء منصوب علی شریطۃ التفسیر باید متعلق بالفعل و قیل حال من الفاعل و من کل شیء متعلق بخلقنا کذلک ای الامر کذلک المتین بالرفع علی النعت وقیل ھو خبر مبتداء محذوف ای ھو المتین (ابو البقاء) ۔ تفسیر : ان آیات میں اپنی خدائی کا ثبوت اور توحید اور مسئلہ رسالت اور گناہوں کا برا نتیجہ پیش آنا ثابت کرتا ہے۔ پہلی بات پر تین دلیلیں لایا۔ اول والسماء بنینہا کہ آسمان کو ہم نے قدرت کاملہ سے بنایا اور ہم بڑے وسعت والے ہیں، یعنی قدرت والے۔ دوم والارض فرشناھا زمین کو ہم نے فرش کردیا۔ یعنی بندوں کی سکونت کے قابل کیا۔ آسمان چھت اور زمین اس دار دنیا کا فرش ہے۔ سوم ومن کل شیء ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا، یعنی اس کی دوسری چیز مثل ہے، جنس میں یا فصل میں یا جوہر ہونے میں بےمثل وہی ہے۔ یہی دلیل ہے، اس کی خدائی ویکتائی پر۔ یہ چیزیں اس گھر کی زینت و آرائش کے سامان ہیں تاکہ تم سمجھو کہ یہ گھر چند روزہ ہے۔ اس کو مرنے سے پہلے چھوڑ کر اللہ کی طرف دوڑو جو تم کو اس سے عمدہ گھر میں آسائش دیوے یعنی اس کی طرف جلد رجوع کرو۔ میں اس کی طرف تم کو جلد متنبہ کرنے آیا ہوں، یہاں سے مسئلہ رسالت کا ثبوت کیا۔ اب توحید کا ثبوت کرتا ہے کہ جب وہی بےمثل اور اس گھر کا بنانے والا ہے۔ ولا تجعلون مع اللہ الہا آخر اس کے ساتھ اور کسی کو خدائی میں شریک نہ کرو، انہی باتوں کے بتانے کو میں دنیا میں تمہارے پاس آیا ہوں۔ پھر مسئلہ نبوت میں کلام شروع ہوتا ہے کہ تم جو مجھے نہیں مانتے یہ کوئی نئی بات نہیں، رسالت کا سلسلہ بھی مدت سے جاری ہے۔ جب کوئی رسول دنیا میں آیا لوگوں نے اس کو جادوگر اور دیوانہ بتایا۔ اس بات کو تعجب کے طور پر خدا تعالیٰ ذکر کرتا ہے کہ کیا وہ اگلے ان پچھلوں کو وصیت کرگئے اور کہہ گئے تھے کہ تم بھی رسول کو دیوانہ اور ساحر کہنا جو یہ ان کی تقلید کرتے ہیں ؟ پھر آپ ہی فرماتا ہے کہ وصیت تو نہیں کرگئے تھے، خود انہی کی ذات میں سرکشی کا مادہ ہے۔ پس اے رسول ! تم ان سے ہٹ آؤ تمہارا جو کام تھا وہ تم نے پورا کردیا۔ ہاں ایمان داروں کو نصیحت کرتے رہو کہ ان کو اس سے فائدہ ہوگا اور وہ فائدہ یہ ہے کہ ہم نے جن و انسان کو اپنی عبادت کے لیے بنایا ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ کر خدا کی عبادات میں مصروف رہیں گے، اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہم نے یہ گھر بناکر جو تم کو اس میں بسایا ہے۔ شکر کرنے کے لیے نہ کہ نافرمانی و ناشکری کے لیے۔ اس شکر گزاری میں اللہ بندوں سے کوئی اپنا فائدہ رزق روزی کا نہیں چاہتا، جس لیے وہ ہٹتے ہیں، کیونکہ وہ خود رزاق و قوت والا زبردست ہے، یعنی غیر اس کے محتاج بلکہ اس لیے کہ ناشکری کا وبال بندے پر نہ پڑے، جیسا کہ اگلے لوگوں پر وبال آیا۔ پھر فرماتا ہے کہ حال کے منکروں کی بھی وہی نوبت ہے، پھر کیوں عذاب کی جلدی کرتے ہیں۔ یہ چوتھی بات کا ثبوت تھا۔
Top