Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 53
اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًاۙ
اَمْ : کیا لَھُمْ : ان کا نَصِيْبٌ : کوئی حصہ مِّنَ : سے الْمُلْكِ : سلطنت فَاِذًا : پھر اس وقت لَّا يُؤْتُوْنَ : نہ دیں النَّاسَ : لوگ نَقِيْرًا : تل برابر
کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے کہ تم لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے
(53 ۔ 55) ۔ اوپر ذکر تھا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ یہود کو یہاں تک دشمنی تھی کہ یہ لوگ قریش کو احزاب کی لڑائی پر آمادہ کرنے کے لئے اطراف مدینہ سے سفر کر کے مکہ گئے ان آیتوں میں فرمایا یہود کیہ یہ دشمنی فقط اس سبب سے ہے کہ نبی آخر الزماں بنی اسماعیل میں سے کیوں ہوئے اولاد اسحاق میں سے کیوں نہیں ہوئے حالانکہ بنی اسحاق اور بنی اسماعیل دونوں کا سلسلہ ابراہیم (علیہ السلام) سے ملتا ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں ایک مدت دراز تک نبوت بادشاہت سب کچھ رہا اب ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں ایک نبی آخر الزماں کے پیدا ہونے سے نبی آخر الزماں کے ساتھ ان لوگوں کی اس قدر دشمنی فقط ان لوگوں کی بخیلی کے سبب سے ہے کیونکہ ان کی بخیلی کی عادت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے۔ کہ ان کے قبضہ میں ایک سلطنت بھی ہو تو یہ لوگ اس میں سے ایک تل برابر چیز بھی کسی کو نہ دیں۔ کھجور کی گٹھلی پر نقطہ کی برابر ایک نشان جو ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں یحسدون الناس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ناس سے آنحضرت ﷺ اور ان کے ساتھ مقصود ہیں 2۔ انہیں آیتوں میں آنحضرت ﷺ کی تسکین کے لئے یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کی مخالفت اللہ کے نبی کے سات کچھ نئی نہیں ہے۔ بلکہ نبی آخر الزمان کی بنی اسماعیل میں پیدا ہونے کا حیلہ ہے یہ لوگ تو ایسوں کی اولاد ہیں جنہوں نے خود اپنے گھرانے کے نبیوں کے ساتھ بڑی مخالفتیں کر کے بعض نبیوں کو شہید کر ڈالا۔ آخر کو فرمایا یہ لوگ ہوں یا ان کے بڑے ایسے لوگوں کو جہنم کی دھکتی آگ کی سزا کافی ہے۔
Top