Mazhar-ul-Quran - An-Nahl : 35
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا
وَمَنْ : اور کون۔ کس اَحْسَنُ : زیادہ بہتر دِيْنًا : دین مِّمَّنْ : سے۔ جس اَسْلَمَ : جھکا دیا وَجْهَهٗ : اپنا منہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَھُوَ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکو کار وَّاتَّبَعَ : اور اس نے پیروی کی مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَاتَّخَذَ : اور بنایا اللّٰهُ : اللہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم خَلِيْلًا : دوست
اور کہا ان لوگوں نے جو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں کہ اگر چاہتا تو ہم خدا کے سوا کسی کی پوجا نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس سے جدا ہو کر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے، اسی طرح جو (کافر) لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی ایسی حرکت کی تھی، پس رسولوں پر کیا ہے مگر (احکام الہی کا) صاف صاف پہنچا دینا
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ کلام مشرکین مکہ کا مسخرا پن کے طور پر تھا آنحضرت ﷺ سے کہتے تھے کہ آپ جو بیان کرتے ہیں کہ ہر ایک بات خدا کی جانب سے ہوا کرتی ہے تو پھر آپ کی رسالت کی کیا ضرورت تھی۔ آپ آتے یا نہ آتے اگر خدا کو منظور ہوتا تو ہم اس کے سوا کسی بت وغیرہ کی عبادت نہ کرتے ، نہ حلال کو حرام ٹھہراتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کا یہ کلام نقل کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ کو تسلی دی کہ آپ اپنے دل میں ان کی باتوں کا کچھ خیال نہ کریں ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں وہ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔
Top