Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے۔ اور خدا زبردست اور صاحب حکمت ہے۔
(38 ۔ 40) ۔ راہ زنوں کے ذکر کے بعد یہ چوروں کا ذکر فرمایا چور کا ہاتھ کاٹنا اور خون بہا کا ادا کرنا شریعت محمدی سے پہلے بھی قریش میں جاری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی میں اسی رواج کو قائم فرمادیا ہے۔ جس عورت مخزومیہ کے ہاتھ کاٹنے کے وقت یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں اس عورت کا قصہ صحیحین اور مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں جو کچھ مذکور ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت ایک عورت نے چوری کی تھی قریش کو اس عورت کا ہاتھ کاٹنا شاق تھا اس لئے قریش نے اسامہ بن زید ؓ سے آنحضرت کی خدمت میں سفارش کرائی آپ کو یہ سفارش سن کر بڑا غصہ آیا اور آپ نے فرمایا کیا تعزیرات الٰہی میں بھی بندوں کی سفارش کا کچھ دخل ہوسکتا ہے۔ بالفرض محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ بھی کچھ چورائے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاوے گا 1 ؎۔ غرض آپ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اور جب اس عورت کا ہاتھ کٹ چکا تو اس عورت نے حضرت سے پوچھا کہ حضرت میری توبہ بھی قبول ہوگئی آپ نے فرمایا اب تو ایسی ہوگئی جیسے تیری ماں نے تجھ کو جنا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کس قدر مال کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ سفیان ثوری ؓ اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تین درہم اور امام شافعی (رح) کے نزدیک چہار حصہ دینار کا اور امام احمد (رح) کے نزدیک چہارم حصہ دینار کا یا تین درہم یہ مقدار ہر ایک کے نزدیک مقرر ہے اور دلیل ہر ایک مذہب کی فقہ کی کتابوں میں ہے 1 ؎۔ ایک شخص ابو العلاء شاعر نے بغداد کے فقہا پر ایک اعتراض جو اس چوری کی مقدار کا کیا وہ مشہور ہے وہ اعتراض یہ ہے کہ ایک شخص کسی شخص کا ہاتھ کاٹ ڈالے تو سرع میں اس کا خون بہا پانچ سو دینار ہیں اور ایک شخص کسی شخص کی کچھ چیز چرائے تو تین درہم پر وہی پانچ سواشرفی کی قیمت کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ شریعت کے احکام برے کاموں سے روکنے کے لئے ہیں۔ اس واسطے چور کو یوں روکا گیا ہے کہ تین درہم تک ہاتھ کٹ جانے کا خوف رہے اور خون خرابہ کرنے والوں کو خانہ جنگی سے یوں روکا گیا ہے کہ اگر کسی کا ہاتھ بھی تم کاٹوں گے تو پانچ سو اشرفیاں جرمانہ بھرنا پڑے گھا بعض علماء نے یہ بھی جواب دیا ہے کہ چور کے ہاتھ کی قیمت تین درہم خدا نے رکھی ہے اور سچے ہاتھ کی قیمت پانسو اشرفی 2 ؎۔ اکثر علماء کے نزدیک توبہ کرنے سے ہاتھ کاٹنے کی سزا ساقط نہیں ہوتی ہاتھ کاٹنے تو تاوان کے دلانے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل بڑی کتابوں میں ہے 3 ؎۔ آخر کو فرمایا آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اس کے حکم میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ جس کی توبہ خالص ہو اس کو وہ بخش دے تو اسے اختیار ہے اور جس کی توبہ خالص نہیں اور وہ اسے نہ بخشے تو بھی اسے اختیار ہے۔ غرض کوئی بات اس کی قدرت اور اس کے اختیار سے باہر نہیں اور وہ عالم الغیب ہے توبہ کا خالص ہونا اور نہ ہونا اسی کو خوب معلوم ہے۔
Top