Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 198
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ
: اور چور مرد
وَالسَّارِقَةُ
: اور چور عورت
فَاقْطَعُوْٓا
: کاٹ دو
اَيْدِيَهُمَا
: ان دونوں کے ہاتھ
جَزَآءً
: سزا
بِمَا كَسَبَا
: اس کی جو انہوں نے کیا
نَكَالًا
: عبرت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے اور خدا زبردست (اور) صاحب حکمت ہے
والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما اور چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو ۔ باجماع اہل قرأت۔ السَّارِقُاور السَّارِقَۃُ پر رفع منقول ہے۔ حالانکہ ضابطہ نحو کا تقاضا ہے کہ ایسے مقام میں نصب (زبر) لایا جائے تاکہ کسی توجیہ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس لئے سیبویہ اور دوسرے نحویوں نے اس جگہ خصوصی تاویل کی ہے۔ سیبویہ نے کہا یہ دو جملے ہیں السارق والسارقۃ مبتدا ہے اور خبر محذوف ہے۔ یعنی حُکْمُہُمَا فِیْمَا یُتْلٰیچور مرد اور چور عورت کا حکم ان آیات میں موجود ہے جو تم کو سنائی جا رہی ہیں اور فاقطعواجزا ہے جس کی شرط محذوف ہے یعنی اگر ان کی چوری ثابت ہوجائے تو ہاتھ کاٹ دو ۔ مبرد نے کہا جملہ ایک ہی ہے اور فعل انشاء ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ السارق پر نصب پڑھا جائے لیکن فاقطعوا کی فاء گزشتہ اسم پر اقطعواکو عمل کرنے سے روک رہی ہے اس لئے یوں کہا جائے گا کہ السارق والسارقۃ مبتدا ہے اور چونکہ معنی شرط کو حامل ہے اس لئے اس کی جزا میں فا لائی گئی ہے۔ علامۂ تفتازانی کا قول ہے کہ ایسے مقام پر انشاء بلاتکلف مبتدا کی خبر واقع ہوجاتی ہے کیونکہ حقیقت میں ایسا فعل انشائی شرط کی جزا ہوتا ہے یعنی اگر کسی نے چوری کی ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ اسلوب قرآنی ہے کہ اکثر مواقع میں عورتوں کا تذکرہ مستقل طور نہیں کیا جاتا۔ مردوں کے ذکر میں عورتوں کا حکم بھی ذیلی طور پر آجاتا ہے لیکن اس جگہ حد زنا کے موقع پر ہر مرد کے ساتھ مستقل طور پر عورت کا ذکر کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ محض شبہ سے حد کا سقوط ہوجاتا ہے (اور صراحت سے اگر عورت کا ذکر حدود کے موقع پر نہ ہو تو شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید عورتوں کے لئے یہ حدود نہیں ہیں) اس لئے صراحت کے ساتھ عورت کا بھی ذکر کردیا۔ اس آیت میں جو مرد کا ذکر پہلے اور حد زنا کی آیت میں عورت کا ذکر پہلے اس لئے کیا کہ چوری کے لئے جرأت کی ضرورت ہے جو مردوں میں زیادہ ہوتی ہے اور زنا کا مدار شہوت پر ہے جو عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے ‘ ہاتھ کاٹنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ ہاتھ چوری کا آلہ ہے لیکن زنا کی سزا میں آلۂ زنا کاٹنے کا حکم نہیں دیا تاکہ قطع نسل نہ ہو۔ ہاتھ کا اطلاق پورے ہاتھ پر مونڈھے تک ہوتا ہے اسی لئے خوارج کے نزدیک چور کا ہاتھ مونڈھے سے کاٹنے کا حکم ہے۔ لیکن امت اسلامیہ کا عمل ہمیشہ سے یونہی چلا آیا ہے اور اسی پر اجماع ہوچکا ہے کہ پہنچے سے ہاتھ کاٹا جائے۔ عمل متوارث اور ایسے اجماع کے لئے کسی سند اور خصوصی دلیل کی ضرورت نہیں۔ (پوری امت کا اتفاق آراء گمراہی پر نہیں ہوسکتا) خصوصی طور پر کچھ احادیث بھی آئی ہیں جن کے اندر پہنچے سے ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے۔ صفوان کی چادر کی چوری کے سلسلہ میں دارقطنی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہنچے سے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ یہ روایت ایک راوی کی وجہ سے جس کا نام عذری ہے ضعیف قرار دی گئی ہے۔ کامل میں ابن عدی نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت سے لکھی ہے لیکن اس سلسلہ میں عبدالرحمن ؓ بن سلمہ آتا ہے جس کے متعلق ابن قطان نے کہا ہے کہ مجھے اس کا کوئی حال معلوم نہیں (گویا یہ شخص منکر اور مجہول ہے) ابن ابی شیبہ نے رجاء بن حیوٰۃ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جوڑ سے (ایک شخص کی) ٹانگ کٹوائی تھی۔ یہ روایت مرسل ہے۔ ابن ابی شیبہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ نے جوڑ سے (ہاتھ) کٹوائے تھے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ ہاتھ کا لفظ مشترک ہے اس کا اطلاق پنجہ سے مونڈھے تک پورے عضو پر بھی ہوتا ہے اور صرف پہنچے تک بھی۔ موخر الذکر معنی پر اس کا اطلاق زیادہ مشہور ہے اور اوّل معنی پر کم اور جب یہ لفظ مشترک ہے تو وہ معنی مراد لینا ضروری ہے جو یقینی ہو (یعنی پہنچے تک) اس سے زائد میں احتمال ہے کہ شاید یہ مراد نہ ہو اس لئے باقی حصۂ دست میں اشتباہ ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت میں بجائے ایدیہما کے ایمانہما آیا ہے اس لئے باجماع علماء نے کہا ایدی سے مراد دائیں ہاتھ ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت مشہور ہے اور آیت کا تعلق حکم سے ہے اور واقعہ بھی ایک ہی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ اگر حکم سے آیت کا تعلق ہو اور واقعہ میں وحدت ہو تو مطلق کو مشہور میں ذکر کی ہوئی قید سے مقید کرنا جائز ہے۔ یہ مجمل کا بیان نہیں ہے کیونکہ یہاں اجمال ہی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اور صحابہ ؓ نے چوروں کے داہنے ہاتھ ہی کٹوائے اگر مطلق مراد ہوتا تو حضور ﷺ اور صحابہ ؓ بایاں ہاتھ کٹواتے لوگوں کے لئے سہولت اسی میں تھی اور سہولت کی طلب ضروری تھی۔ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے زیادہ کام آتا ہے (اس کے کٹوانے میں لوگوں کا نقصان زیادہ ہے) ایدیجمع کا صیغہ ہے اور ہما تثنیہ کی ضمیر ہے اور ایدی سے مراد دائیں ہاتھ ہیں اس لئے اس کا اشتباہ نہیں ہوسکتا کہ ایدی سے مراد چاروں ہاتھ ہیں اور جب اشتباہ نہ ہو تو تثنیہ کی طرف جمع کی اضافت جائز (بلکہ بہتر) ہے تثنیہ کی طرف اضافت کرنے سے تکرار تثنیہ ہوجائے گی (جو کلام میں گرانی پیدا کر دے گی) لیکن اگر جمع کا صیغہ لانے سے اشتباہ پیدا ہو رہا ہو تو تثنیہ کی جانب جمع کی اضافت جائز نہیں جیسے افراسکما اور علماتکما کہنا (جب کہ دو گھوڑے اور دو غلام مراد ہوں) جائز نہیں۔ لیکن اگر ایدی سے مطلق مراد ہو (صرف دائیں ہاتھ مراد نہ ہوں) تو چونکہ اس وقت (چار ہاتھ ہونے کا) اشتباہ ہوجائے گا اس لئے تثنیہ کی طرف جمع کی اضافت جائز نہ ہوگی۔ واللہ اعلم۔ سرقہ (چوری) سے مراد ہے کسی کا مال چھپا کر محفوظ مقام سے لے لینا قاموس میں ہے۔ سرق منہ الشی واسترقہچھپ کر کسی محفوظ مقام پر گیا اور وہاں سے دوسرے کا مال لے لیا۔ پس پوشیدہ طور پر محفوظ مقام سے کسی غیر کا مال لے لینا۔ چوری کے مفہوم میں داخل ہے۔ اسی لئے چوری کے لئے مندرجۂ ذیل شرطیں ضروری ہیں۔ (1) مال غیر کا مملوک ہو اور چور کے مالک ہونے کا اس میں شبہ بھی نہ ہو۔ (2) مال محفوظ ہو جس کی حفاظت میں کوئی شبہ نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اگر کسی ایک چیز کے لئے کوئی ذریعہ حفاظت ہو تو وہ ہر طرح کے مال کے لئے ذریعہ حفاظت مانا جائے گا لیکن باقی تینوں اماموں کے نزدیک اموال کے اختلاف کے اعتبار سے ان کے ذرائع حفاظت میں بھی اختلاف ہوتا ہے اور اس کی تعیین صرف عرف پر موقوف ہے مثلاً اگر گھوڑوں کے اصطبل یا بکریوں کے باڑہ کے اندر سے موتی چرائے تو امام اعظم کے نزدیک ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مگر دوسرے اماموں کے نزدیک نہیں کاٹا جائے گا (اصطبل اور باڑہ اگرچہ مقام حفاظت ہے مگر موتیوں کے لئے نہیں۔ گھوڑوں اور بکریوں کے لئے ہے) ۔ حفاظت کبھی تو مقام کی وجہ سے ہوتی ہے جو حفاظت کیلئے بنایا گیا ہو (مثلاً خزانہ کی جگہ بینک کی عمارت وغیرہ) اور کبھی نگراں کی وجہ سے مال کے محفوظ ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص راستہ میں یا مسجد میں اپنا سامان اپنے ساتھ رکھ کر بیٹھ جائے (تو باوجودیکہ راستہ عام جگہ اور مسجد عام مقام ہے مگر سامان کو زیر حفاظت قرار دیا جائے گا) حضرت صفوان ؓ مسجد میں سو رہے تھے کسی شخص نے ان کے سر کے نیچے سے چادر چرا لی۔ رسول اللہ ﷺ نے چور کا ہاتھ کٹوا دیا۔ رواہ مالک فی المؤطا و احمد والحاکم و ابوداؤد والنسائی ابن ماجہ۔ صاحب تنقیح نے لکھا ہے یہ حدیث صحیح مختلف طریقوں سے آئی ہے اور الفاظ بھی مختلف روایات میں کچھ مختلف ہیں۔ اگرچہ بعض سلسلے منقطع اور بعض کچھ ضعیف ہیں (مگر بحیثیت مجموعی حدیث صحیح ہے) اگر دن میں چوری ہو تو شروع اور آخر دونوں حالتوں میں پوشیدہ ہونا ضروری ہے اور اگر رات میں ہو تو صرف ابتدا میں پوشیدہ ہونا کافی ہے کیونکہ رات میں دیوار میں نقب زنی اگر چھپ کر کی پھر مالک سے مال زبردستی سامنے آ کرلیا تو یہ سرقہ ہوجائے گا۔ باجماع علماء چوری کے لئے شرائط مذکورہ کا موجود ہونا لازم ہے کیونکہ چوری کے مفہوم میں یہ شرطیں داخل ہیں۔ رہا چور کی ملکیت کا شبہ نہ ہونا اور مال کا یقینی طور پر محفوظ ہونا تو یہ دونوں شرطیں مرفوع حدیث سے مستفاد ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے شافعی اور ترمذی اور حاکم اور بیہقی نے بیان کیا ہے اور بیہقی نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہاں تک ہو سکے مسلمانوں سے حدود (شرعی سزاؤں) کو ساقط کرو۔ مسلمانوں کے لئے خلاصی کا اگر کوئی بھی راستہ نکل سکتا ہو تو اس کو رہا کر دو کیونکہ غلطی سے معاف کردینا سزا میں خطا کرنے سے حاکم کے لئے بہتر ہے۔ ابن ماجہ نے حسن سند سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب تک تم کو دفع کرنے کا راستہ ملے اللہ کے بندوں سے حدود کو دفع کرو۔ حضرت علی ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ حدود کو دفع کرو مگر امام کے لئے حدود کو معطل کردینا جائز نہیں (کہ کامل ثبوت کے بعد بھی سزا نہ دے) رواہ الدارقطنی والبیہقی بسند حسن۔ ابن عدی نے اہل مصر کی حدیث سے ضعیف سند کے ساتھ نیز جربزہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی مرفوع روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے کہ شبہات کی وجہ سے حدود کو ساقط کر دو اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حد کے علاوہ دوسری صورتوں میں بھلے آدمیوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔ اس حدیث کا اوّل حصّہ ابو مسلم کحی اور ابن السمعانی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کی روایت سے مرسلاً اور مسدو نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے موقوفاً بیان کیا ہے۔ اجماع علماء ہے کہ حدود کو شبہات کی وجہ سے ساقط کردیا جائے۔ چوری کی شرائط مذکورہ بیان کرنے کے بعد اب ہم وہ مسائل بیان کرتے ہیں جو ان شرائط پر متفرق ہوتے ہیں۔ مسئلہ : لٹیرے اور اچکے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ یہ سامنے سے لیتے ہیں۔ چوری نہیں کرتے خائن اور منکر امانت کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ حفاظت کاملہ کے اندر سے اس صورت میں مال نہیں لیا جاتا ‘ مالک اپنی مرضی سے اپنا مال امانت رکھتا اور دوسرے کی حفاظت میں دیتا ہے اس لئے مال مالک کی حفاظت میں نہیں رہتا خائن اور منکر امانت کی حفاظت میں چلا جاتا ہے چور کی حفاظت میں مالک خود اپنا مال نہیں دیتا چور کو اس کی حفاظت میں دخل ہوتا ہے اصل مسئلہ کا ثبوت مندرجۂ ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوٹنے والے پر قطع (دست کا جرم) نہیں اور جو علی الاعلان لوٹے وہ ہم میں سے نہیں۔ رواہ ابو داؤد۔ حضرت جابر ؓ کی دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوٹنے والے پر قطع (دست کا جرم) نہیں نہ خائن پر نہ لوٹنے والے پر نہ اچکے پر۔ رواہ احمد والترمذی والنسائی و ابن ماجہ والدارمی۔ ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی روایت سے صحیح سند سے ابن ماجہ نے اس کی تائید میں دوسری حدیث بھی نقل کی ہے اور طبرانی نے الاوسط میں زہری کے طریق سے حضرت انس ؓ کی تائیدی روایت بھی لکھی ہے اور ابن جوزی نے العلل میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی اس کی تائیدی حدیث بیان کی ہے مگر اس کو ضعیف کہا ہے۔ امام احمد (رح) کے نزدیک منکر عاریت کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں آیا ہے کہ ایک مخزومی عورت لوگوں کا سامان بطور رعایت لے کر منکر ہوجاتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ اس عورت کے آدمی نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کے پاس کچھ عرض معروض کی ‘ جس کی وجہ سے حضرت اسامہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گزارش کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اسامہ میرا تو خیال تھا کہ تم اللہ کی قائم کی ہوئی کسی حد میں مجھ سے (کبھی) کچھ نہیں کہو گے پھر (باہر تشریف لا کر) خطبہ دینے حضور : ﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایا تم سے پہلے والے لوگ اسی لئے تباہ ہوئے کہ اگر ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور کمزور چوری کرتا تھا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے تھے۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمد ﷺ : کی بیٹی فاطمہ ؓ : بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔ پھر حضور ﷺ نے مخزومی عورت کا ہاتھ کٹوا دیا۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ مخزومیہ سامان بطور عاریت لے کر منکر ہوجاتی تھی حضور ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ جمہور کی طرف سے اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ وہ عورت عاریت لے کر انکار کر جانے میں مشہور تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کی یہی مشہور صفت بیان کر کے تعیین شخصی کردی (اگرچہ نام نہیں لیا مگر اسکی امتیازی شہرت کو ذکر کر کے گویا نامزد کردیا) آپ کا مطلب یہ تھا کہ قبیلۂ بنی مخزوم کی وہ عورت جو عاریت لے کر مکر جانے میں مشہور تھی۔ ایک مرتبہ اس نے چوری کی تو اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا گیا (اس مطلب کی تائید اس تقریر سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے اقوام گزشتہ کی ہلاکت اس امر کو قرار دیا تھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو وہ چھوڑ دیتے تھے اور کمزور آدمی چوری کرتا تھا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے تھے اس تشبیہی قصہ کو بیان کرنے سے ثابت ہو رہا ہے کہ مخزومیہ عورت نے بھی چوری کی تھی۔ ورنہ صرف عاریت لے کر منکر ہوجانے کو چوری نہیں کہا جاسکتا۔ پھر تمثیل اور ممثل لہٗ نے بھی وجہ شبہ مشترک نہیں نکلے گی۔ پھر آخر میں حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔ یہ الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ مخزومیہ نے چوری کی تھی ‘ ورنہ لوگ کہہ سکتے تھے کہ حضور ﷺ یہ عورت تو منکر عاریت ہے چور نہیں ہے اور آپ چوری کی سزا کا ذکر فرما رہے ہیں۔ اگر یہ عورت بھی کبھی چوری کرے تو حضور ﷺ اس کا ہاتھ کٹوا دیں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے مخزومی عورت کے منکر عاریت ہونے کی ایک عمومی حالت بیان کی ‘ کوئی خاص واقعہ بیان نہیں کیا۔ عمومی حالت پر قطع دست کی سزا کیسے مل سکتی ہے اگر کوئی چور مشہور ہو مگر چوری کے کسی واقعہ کا ثبوت نہ ہو تو کیا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا (ان تمام قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت نے کوئی چوری کی تھی) اگر اس حدیث کو ظاہر کے مطابق تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس کے خلاف حضرت جابر ؓ کی حدیث موجود ہے کہ خائن پر قطع دست کا جرم) نہیں اس حدیث کو امت نے قبول کیا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے لہٰذا حضرت عائشہ ؓ والی حدیث کو منسوخ قرار دے دیا جائے گا۔ مسئلہ : کفن چور کا ہاتھ امام اعظم (رح) اور امام محمد کے نزدیک نہیں کاٹا جائے گا (وارثوں کی) ملکیت مشتبہ ہے اور حفاظت کاملہ بھی نہیں ہے۔ کفن دفن کے بعد باقی ترکہ سے وارثوں کا حق متعلق ہوتا ہے کفن وارثوں کے حق میں سے نہیں دیا جاتا ‘ بلکہ ادائے قرض اور اجراء وصیت سے بھی جو مال بچتا ہے وہ میراث میں تقسیم کیا جاتا ہے اس لئے کفن کے مالک وارث نہیں ‘ نہ میت کفن کی مالک ہے مالک ہونے کی مردہ میں صلاحیت ہی نہیں۔ دنیوی احکام کے اعتبار سے مردہ کا شمار جمادات میں ہے۔ رہی قبر تو وہ بھی کوئی محفوظ مقام نہیں۔ جنگل میں ایک غیر محفوظ گڑھا ہے جہاں رات دن لوگ گزرتے ہیں نہ اس پر تالا ہے نہ بندش نہ چوکیدار نہ محافظ۔ امام مالک ‘ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جو کفن چرائے گا ہم اس کے ہاتھ کاٹیں گے۔ رواہ البیہقی۔ مگر یہ حدیث منکر ہے۔ حضرت براء بن عازب اس کے راوی ہیں۔ بیہقی نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں بعض راوی مجہول ہیں۔ بخاری نے تاریخ میں لکھا ہے کہ ہشیم نے سہل کا بیان نقل کیا ہے سہل نے کہا میرے سامنے حضرت عبداللہ ؓ بن زبیر نے ایک کفن چور کا ہاتھ کٹوایا تھا۔ مگر سہل ضعیف راوی ہے۔ عطاء نے کہا ہم اس کو کاذب قرار دیتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے حسن بصری اور ابن سیرین کا قول نقل کیا ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ معاویہ بن فردہ کا قول بھی روایت میں آیا ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ اس مبحث کی کوئی حدیث مرفوع نہیں آئی۔ مسئلہ : امام ابوحنیفہ (رح) ‘ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد ‘ نخعی اور شعبی کے نزدیک بیت المال کے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ امام مالک کے نزدیک کاٹا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں بیت المال کا مال عام لوگوں کا مال ہے اور چور بھی عوام میں داخل ہے (فی الجملہ بیت المال کی ملکیت میں چور بھی شریک ہے) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اس پر (یعنی بیت المال سے چوری کرنے والے پر) ہاتھ کاٹنے کا جرم نہیں ہے۔ ہر ایک کا بیت المال میں کچھ نہ کچھ کچھ حق ہے۔ بیہقی نے حضرت علی ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ بیت المال سے جس نے چوری کی ہو اس پر قطع دست (کا جرم) نہیں ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ زکوٰۃ میں وصول شدہ ایک غلام نے مال غنیمت میں سے کوئی چوری کی معاملہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا ‘ آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کٹوایا اور فرمایا اللہ کے ایک مال نے اللہ کا دوسرا مال چرا لیا۔ ایک شخص نے بیت المال سے کچھ چرایا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو کوئی بھی ایسا نہیں کہ اس مال میں اس کا حق نہ ہو۔ مسئلہ : ایک شریک اگر شرکت کا مال دوسرے شریک کے تحفظ میں سے چرا لے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مسئلہ : اگر ایک آدمی کے دوسرے آدمی پر کچھ روپیہ قرض ہوں اور دائن مدیون سے اپنے قرض کی برابر روپیہ چرا لے تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ اس نے صرف اپنا حق وصول کیا بلکہ اگر رقم قرض سے زائد بھی چرائے تو چونکہ چور کی ملکیت بھی اس چرائی ہوئی رقم کے ساتھ مخلوط تھی اس لئے اس صورت میں بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مسئلہ : ماں باپ اور ساری اوپر کی اصل اپنی اولاد کا مال چرا لیں تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے تیری ذات اور تیرا مال (سب) باپ کا ہے اسی طرح اگر اولاد اور نسل اپنے ماں باپ اور بالائی اصول کا مال چرا لے تو تین اماموں کے نزدیک ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ صرف امام مالک کے نزدیک ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر کسی محرم رشتہ دار نے اپنے محرم رشتہ دار کا مال چرا لیا جیسے بھائی نے بھائی یا بہن کا یا چچا کا تو امام صاحب کے علاوہ دوسرے تینوں اماموں کے نزدیک ہاتھ کاٹا جائے گا۔ یہ حضرات قرابت قریبہ کو بھی قرابت بعیدہ کی طرح قرار دیتے ہیں امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مال کی حفاظت اس صورت میں ناقص ہوتی ہے (ہر محرم کو دوسرے محرم کے گھر کے اندر جانے کی اجازت ہے) اللہ نے فرمایا ہے ولا عَلٰی اَنْفُسَکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآءِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اُمَّہَاتِکُمْ ۔۔ اَوْ صَدِیْقِکُمْتک۔ یعنی کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنے گھروں میں سے کچھ کھالو یا باپ کے گھروں میں سے یا ماؤں کے گھروں میں سے بھائیوں کے گھروں میں سے یا بہنوں کے گھروں میں سے یا چچوں کے گھروں میں سے یا پھوپھیوں کے گھروں میں سے یا ماموں کے گھروں میں سے یا خالاؤں کے گھروں میں سے یا اس مال میں سے جس کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہوں یا اپنے دوست کے گھر میں سے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے گھر میں داخل ہونا اور گھر کے اندر سے کچھ کھا لینا جائز ہے اور اگر ممانعت کی دلیل قائم بھی کردی جائے تب بھی جواز کا شبہ تو باقی رہے گا جیسے حدیث انت وَمَالک لابیک کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ شبہ : اس آیت کی رو سے تو دوست کے گھر میں سے (بغیر اجازت) کھا لینا جائز قرار پاتا ہے۔ لہٰذا دوست کا مال چرانے پر بھی ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ (دوست کا مال کھا لینے سے تو دشمن نہیں ہوجاتا بلکہ دوستی میں مزید بےتکلفی اور استحکام ہوجاتا ہے البتہ) دوست کا مال چرانے کے وقت دوست نہیں رہتا دشمن بن جاتا ہے (لہٰذا قطع دست واجب ہوگیا) مسئلہ : اگر کسی محرم قرابت دار کے گھر سے کسی غیر آدمی کا مال چرایا تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور اگر محرم رشتہ دار کا مال کسی غیر کے گھر سے چرایا تو امام اعظم کے نزدیک ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اوّل صورت میں حفاظت ناقصہ کے اندر سے چوری کی اور دوسری صورت میں حفاظت کاملہ کے اندر سے چرایا۔ مسئلہ : اگر بیوی نے میاں کے گھر سے یا میاں نے بیوی کے گھر سے یا اس مکان سے جس میں دونوں رہتے ہیں کسی غیر شخص کا مال چرایا تو امام صاحب کے نزدیک چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ امام احمد کا بھی یہی مسلک منقول ہے اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔ امام مالک نے فرمایا اگر مشترک مکان سے جس میں میاں بیوی دونوں رہتے تھے کسی اجنبی کا مال چرایا تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ لیکن اگر میاں نے بیوی کے گھر سے یا بیوی نے میاں کے گھر سے اجنبی کا مال چرایا تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ امام شافعی کا بھی اصل مسلک یہی ہے اور ایک روایت میں امام احمد کا بھی یہی قول آیا ہے۔ امام شافعی (رح) کا ایک قول اس طرح آیا ہے کہ شوہر نے اگر بیوی کے گھر سے کسی غیر کا مال چرایا تو ہاتھ کاٹا جائے گا اور بیوی نے میاں کے گھر سے چرایا تو نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان کی بیوی ہندہ سے فرمایا تو ابوسفیان کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہے جو تیرے اور تیرے بچوں کے لئے کافی ہو۔ امام صاحب (رح) کی دلیل یہ ہے کہ عرفاً میاں بیوی کے مکان میں اور بیوی میاں کے مکان میں بغیر اجازت کے آتے جاتے رہتے ہی ہیں لہٰذا حفاظت ناقص ہوگئی۔ امام مالک (رح) کے موطا میں ہے کہ حضرت عمر ؓ کی خدمت میں ایک غلام کو پیش کیا گیا جس نے اپنے آقا کی بیوی کا آئینہ چرایا تھا فرمایا اس پر کچھ (سزا) نہیں ہے تمہارے خادم نے تمہارا سامان چرایا ہے۔ جب اس فرمان کی رو سے شوہر کے غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا تو خود شوہر کا ہاتھ کیسے کاٹا جاسکتا ہے۔ مسئلہ : اگر غلام نے اپنے آقا کا یا آقا کی بیوی کا یا مالکہ کے شوہر کا مال چرایا لیا تو چونکہ غلام کو داخلہ کی اجازت ہوتی ہی ہے اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اگر مہمان نے (مہمانی کے دوران) میزبان کی کوئی چیز چرا لی تو چونکہ اس کو میزبان کی طرف سے اندر آنے کی اجازت مل چکی تھی اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ وہ مکان جس میں عام طور پر دن میں داخل ہونے کی اجازت ہوتی ہے جیسے بازار کی دکانیں تو دن کے وقت ان میں چوری کرنے سے بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ داخلہ کی اجازت عمومی ہوتی ہے۔ مسئلہ : اگر بقدر نصاب سرقہ ‘ مال چرایا پھر چوری کے بعد اس کو خرید لیا یا مالک نے ہبہ کردیا یا بطور میراث چور کی ملک میں آگیا اور یہ سب کچھ قاضی کے پاس مقدمہ جانے سے پہلے ہوگیا یا مقدمہ کی پیشی کے بعد اور فیصلہ سے پہلے ہوگیا یا فیصلہ کے بعد بھی ہوا بہرحال امام اعظم (رح) اور امام محمد (رح) کے نزدیک ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ امام مالک (رح) ‘ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد اور امام ابو یوسف کے نزدیک ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ چوری بہرطور پوری چوری ہوگئی اور اسکا ظہور و ثبوت بھی ہوگیا اب کوئی شبہ نہیں رہا۔ اس کے علاوہ صفوان ؓ بن امیہ کی حدیث بھی ہے ‘ حضرت صفوان ؓ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں سو رہا تھا چور آیا اور میرے سر کے نیچے سے چادر نکال لی۔ میں اس کو پکڑ کر رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں لایا اور عرض کیا اس نے میرا کپڑا چرایا ہے۔ حضور ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ تو میرا مقصد نہ تھا میں نے یہ چادر اس کو خیرات کی فرمایا میرے پاس لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا۔ رواہ مالک (رح) و احمد و ابوداؤد وابن ماجۃ والنسائی۔ نسائی کی روایت میں اتنا زائد ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔ ابو داؤد نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (میرے پاس لانے سے پہلے) آپس میں حدود معاف کردیا کرو۔ جب میرے پاس تک کوئی (جرم) قابل حد پہنچ جائے گا تو حد جاری کرنا واجب ہوجائے گا۔ حنفیہ (رح) : کی طرف سے ابن ہمام نے جواب دیا کہ صفوان ؓ کی حدیث ایک روایت میں ایسی ہی ہے جیسے بیان کی گئی۔ لیکن حاکم نے مستدرک میں روایت کے یہ الفاظ لکھے ہیں میں یہ (چادر اس کے ہاتھ) بیچتا ہوں اور قیمت اس پر قرض چھوڑتا ہوں۔ بہت روایات میں یہ بھی نہیں آیا صرف اتنا آیا ہے کہ صفوان ؓ نے کہا میرا یہ مقصد نہ تھا یا یوں کہا کہ کیا ایک عرب کا ہاتھ تیس درہم کی وجہ سے کاٹا جائے گا۔ بہرحال حدیث کے آخر میں جو زیادتی ہے اس میں اضطراب (اور عدم تعیین) ہے اور اضطراب روایت میں ضعف پیدا کردیتا ہے ‘ پھر فیصلہ کی تکمیل اس وقت جب (فیصلہ نافذ ہوجائے اور) حد جاری ہوجائے اور فیصلۂ (کاملہ) سے پہلے چور کا مالک بن جانا شبہ پیدا کردیتا ہے (اور شبہ کی صورت میں حد واجب نہیں ہوتی) فصل : ہاتھ کاٹنے کے لئے چوری کا بقدر نصاب سرقہ ہونا تمام اہل سنت کے نزدیک بالاجماع ضروری ہے لیکن خوارج اور داؤد ظاہری اور ابن بنت الشافعی کے نزدیک نصاب ضروری نہیں۔ حسن بصری کا بھی یہی قول روایت میں آیا ہے کیونکہ آیت مطلق ہے اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چور پر اللہ کی لعنت۔ رسی چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ رواہ البخاری ومسلم۔ ہم کہتے ہیں باجماع علماء (اگرچہ آیت میں کوئی قید اور شرط نہیں ہے لیکن) آیت اطلاق پر نہیں ہے (یعنی کوئی قید یا کچھ نہ کچھ شرط مثلاً ملکیت کاملہ۔ تحفظ کامل وغیرہ سب کے نزدیک معتبر ہے) خارجیوں کے قول کا اعتبار نہیں اور داؤد و حسن بصری کی تنہا رائے اجماع کو نہیں توڑ سکتی۔ مسئلہ : اگر چوروں کی ایک جماعت نے چرایا ہو اور تقسیم کے بعد ایک ایک کے حصہ میں بقدر نصاب مال نہ آئے تو امام اعظم (رح) امام شافعی (رح) کے نزدیک کسی کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ہر شخص کے حصہ میں بقدر نصاب سرقہ مال آنا ضروری ہے۔ امام احمد کے نزدیک سب کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ مذکورۂ بالا حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث کا یہی تقاضا ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا اگر چوری کا مال ایک نصاب سرقہ کے برابر ہو اور سب نے مل کر نکالا ہو اور مال بھی ایسا ہو جس کو منتقل کرنے کے لئے باہم مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہو تو سب کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ورنہ کسی کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ جب تک ہر ایک کے حصہ میں نصاب سرقہ کے بقدر مال نہ آیا ہو۔ مسئلہ : چوری کا نصاب امام اعظم (رح) کے نزدیک دس درہم یا ایک دینار ہے یا کوئی مال جس کی قیمت دس درہم یا ایک دینار ہو وہ بھی نصاب سرقہ ہے۔ امام مالک (رح) اور امام احمد کا قول قوی ترین روایت میں یہ ہے کہ چوری کا نصاب چوتھائی دینار یا تین درہم یا ان دونوں میں سے کسی کے برابر قیمت کا مال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک بقدر چوتھائی دینار کے دراہم وغیرہ نصاب سرقہ ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی مرفوع حدیث ہے۔ چوتھائی دینار اور زیادہ میں ہاتھ کاٹا جائے۔ حدیث کے دوسرے الفاظ اس طرح ہیں ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار میں۔ متفق علیہ۔ ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ڈھال کی قیمت سے کم قیمت کی چوری میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔ مسلم کی روایت بایں الفاظ ہے۔ ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار اور اس سے اوپر (قیمت) کی چوری میں۔ مسند احمد میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں چوتھائی دینار میں ہاتھ کاٹو۔ اس سے کم (قیمت) والی چیز میں نہ کاٹو۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت کے بقدر یعنی تین درہم (کی چوری) میں کٹوایا۔ رواہ البخاری ومسلم۔ امام مالک (رح) نے موطا میں عمرہ بنت عبدالرحمن کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں کسی چور نے ایک ترنج چرا لیا۔ حضرت عثمان ؓ نے حکم دیا کہ ترنج کی قیمت کی جانچ کی جائے جانچ کے بعد بارہ درہم فی دینار کے حساب سے اس ترنج کی قیمت تین درہم قائم کی گئی۔ حضرت عثمان ؓ نے چور کا ہاتھ کٹوا دیا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا چونکہ اسقاط حد کے لئے حیلہ کی ضرورت ہے (خفیف شبہ سے بھی سقوط حد ہوجاتا ہے) اس لئے زیادہ سے زیادہ مقدار کو نصاب سرقہ بنانا ہی زیادہ مناسب ہے اور ڈھال کی (کم سے کم) قیمت مذکورۂ بالا مقدار (تین درہم) سے زیادہ بھی روایت میں آئی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں مجاہد کی وساطت سے ایمن کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (چور کا) ہاتھ نہیں کاٹا گیا مگر (کم سے کم) ڈھال کی قیمت (کے بقدر چوری) میں اور اس زمانہ میں ڈھال کی قیمت ایک دینار (دس یا بارہ درہم) تھی۔ امام احمد اور امام شافعی نے ابن اسحاق کی وساطت سے عمرو بن شعیب کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف کی کتاب اللقط میں سعید بن مسیب کے حوالہ سے ایک مزبی شخص کی روایت لکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب (چوری) ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔ دارقطنی اور امام احمد نے سالم بن قتیبہ از زفر بن ہذیل از حجاج بن ارطاۃ از عمرو بن شعیب از شعیب از جد شعیب کی اسناد سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر دس درہم (کی چوری) میں عبدالرزاق اور طبرانی نے قاسم بن محمد ﷺ کی موقوف روایت سے حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کا قول نقل کیا ہے کہ ہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں ہے مگر ایک دینار یا دس درہم (کی چوری) میں۔ یہ روایت موقوف منقطع ہے کیونکہ قاسم بن محمد کی سماعت حضرت ابن مسعود ؓ سے ثابت نہیں۔ حق یہ ہے کہ جمہور نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے وہ بالکل صحیح ہیں اور یہ احادیث ضعیف ہیں اور زیادہ محتاط مسلک اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب دونوں مقابل احادیث قوت و ضعف میں ایک جیسی طاقت رکھتی ہوں۔ ابن اسحاق سالم زفر اور حجاج بن ارطاۃ جو عمرو بن شعیب والی حدیث کے راوی ہیں سب ضعیف ہیں اور راوی کا یہ قول کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ڈھال کی قیمت دس درہم ہوتی تھی اس کی بناء صرف گمان اور تخمین پر ہے ورنہ یہ بات یقینی ہے کہ ڈھال کی قیمت کبھی تین اور کبھی دس درہم ہوتی ہے اور کبھی اس سے زیادہ بھی ہوتی ہے۔ جیسی ڈھال ویسی ہی اس کی قیمت۔ اس صورت میں حدیث لن یقطع ید السارق علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ فی ادنی من ثمن المجنمجمل قرار پائے گی۔ اور احادیث یقطع فی ربع دینار اور لا یقطع الا فی ربع دینار اوراقطعوا فی ربع دینار ولا تقطعوا فیما ہوا ادنی مِنْ ذٰلک محکم ہیں۔ ان کے مقابلہ پر اگر کوئی حدیث آسکتی ہے تو ولا یقطع السارق الا فی عشرۃ دراہمآ سکتی ہے۔ مگر یہ حدیث مرفوع نہیں اس کو مرفوع کہنا صحیح نہیں اور اختلاف کے موقع پر حدیث موقوف کو استدلال میں نہیں پیش کیا جاسکتا یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ امام شافعی (رح) نے امام محمد (رح) سے کہا یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ چوتھائی دینار اور اس سے زائد کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ دس درہم اور اس سے زائد کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے اس سے کم میں نہ کاٹا جائے۔ امام محمد نے ایمن بن ام ایمن کی حدیث استدلال میں پیش کی جو مجاہد کی روایت سے آئی ہے یہ ایمن وہی ہیں جو حضرت اسامہ بن زید ؓ کے اخیافی بھائی تھے۔ امام شافعی نے جواب دیا کہ ایمن کی شہادت تو غزوۂ خنین میں مجاہد کی پیدائش سے پہلے ہوگئی تھی۔ ابو حاتم نے بیان کیا ہے کہ ایمن جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ نہیں ہیں جو ام ایمن کے بیٹے اور صحابی ؓ تھے اور حنین کی جنگ میں شہید ہوئے تھے ‘ بلکہ یہ تابع ہیں ‘ جنہوں نے نہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا نہ چاروں خلفاء میں سے کسی خلیفہ کا۔ میں کہتا ہوں کہ ام ایمن نے رسول اللہ ﷺ : کو گودوں میں کھلایا تھا ‘ ان کی عمر رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تھی۔ ان کا بیٹا وہ شخص کیسے ہوسکتا ہے جو کسی خلیفہ کے زمانہ میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ ایمن دو تابعیوں کا نام تھا۔ ایک ابن الزبیر تھے۔ دوسرے ابن ابی عمرو کے آزاد کردہ غلام ‘ ابن ابی حاتم اور ابن حبان نے دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے ‘ خلاصہ یہ کہ حدیث حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ والی حدیث کے مقابلہ پر نہیں لائی جاسکتی۔ مسئلہ : جس ملک میں جو چیز بےقیمت ‘ بےقدر اور عام طور پر مباح ہو اس کی چوری میں امام اعظم (رح) کے نزدیک ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا جیسے لکڑی ‘ خشک گھاس ‘ بانس ‘ مچھلی ‘ پرندے ‘ جنگلی شکار کے جانور (چونہ عمارتی گچ وغیرہ جو کھانے کی چیز جلد سڑ جاتی ہے اس کی چوری میں بھی ہاٹھ نہیں کاٹا جائے گا جیسے سالن دودھ دہی گوشت ‘ تازہ تر پھل ‘ تر کھجوریں ‘ تینوں اماموں کے نزدیک اگر ان چیزوں کو محفوظ کر کے رکھ لیا جائے تو ان کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ آیت میں عموم ہے (اس عموم میں ہر چیز داخل ہے) امام صاحب نے فرمایا آیت کا عموم تو باتفاق علماء مراد نہیں ہے۔ نصاب سرقہ سے کم مقدار بہرحال مخصوص ہے۔ لہٰذا ان مذکورہ چیزوں کو استثناء۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کی روشنی میں کیا جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حقیر بےمقدار چیز کی چوری میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔ یہ حدیث عبدالرحمن ؓ بن سلیمان کی وساطت سے بروایت ہشام بن عروہ از عائشہ ؓ : آئی ہے اور ابن ابی شیبہ ؓ نے اسی سند سے مصنف میں اس کو ذکر کیا ہے۔ بصورت ارسال بسند وکیع از ہشام بن عروہ ؓ از عروہ بھی یہ حدیث منقول ہے۔ عبدالرزاق نے منصف میں ابن جریح از ہشام اور اسحاق بن راہویہ نے عیسیٰ بن یونس از ہشام اور ابن عدی نے الکامل میں عبداللہ بن قبیصہ فزاری از ہشام بن عروہ از عائشہ : ؓ نقل کیا ہے۔ ابن عدی نے عبداللہ بن قبیصہ پر کوئی جرح بھی نہیں کی ‘ صرف اتنا کہا ہے کہ عبداللہ کی متابعت کسی نے نہیں کی۔ لیکن متقدمین نے اس کے متعلق کوئی کلام نہیں کیا۔ ابن ہمام نے لکھا ہے یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ یہ تمام مرسل احادیث قابل استدلال ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے اس کو موصولاً بھی بیان کیا ہے۔ عبدالرزاق نے اپنی سند سے بیان کیا کہ عبداللہ بن یسار نے کہا۔ عمر ؓ بن عبدالعزیز کی خدمت میں ایک شخص کو پیش کیا گیا جس نے مرغی چرائی تھی آپ نے اس کا ہاتھ کٹوانے کا ارادہ کیا تو سلمہ بن عبدالرحمن نے فرمایا حضرت عثمان ؓ کا فرمان ہے کہ پرندوں کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی جابر جعفی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے بروایت عبدالرحمن بن مہدی از زبیر بن محمد از یزید بن حفصہ بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں ایک شخص کو پیش کیا گیا۔ جس نے کوئی پرندہ چرایا تھا آپ نے سائب بن یزید سے فتویٰ پوچھا۔ سائب نے کہا میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ پرندہ کی چوری میں اس کا ہاتھ کاٹا ہو۔ پرندہ کی چوری میں اس کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ عمر بن عبدالعزیز نے چور کو چھوڑ دیا۔ ابو داؤد نے مراسیل میں جریر بن حازم کی روایت سے حسن بصری کا قول لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں کھانے (کی چوری) میں ہاتھ نہیں کٹواؤں گا۔ شیخ عبدالحق (رح) نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے اور سوائے مرسل ہونے کے اور کوئی خرابی نہیں بیان کی مگر ہمارے نزدیک مرسل قابل استدلال ہے۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھلوں کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔ رواہ الترمذی عن لیث بن سعد والنسائی وابن ماجۃ عن سفیان بن عیینہ ولیث و سفیان کلاہما عن یحییٰ بن سعید عن محمد بن یحییٰ بن حبان عن عمہ واسع ورواہ ابن حبان فی صحیحہ۔ اگر کسی روایت کے منقطع اور موصول ہونے میں تعارض پڑجائے تو موصول قرار دینا اولیٰ ہوتا ہے کیونکہ موصول میں زیادتی ہوتی ہے اور ثقہ راوی کی طرف سے زیادتی قابل قبول ہے۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top