Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو،135 ۔ ان کے کرتوتوں کے عوض میں، اللہ کی طرف سے بہ طور عبرت ناک سزا کے،136 ۔ اور اللہ بڑا قوت والا ہے، بڑا حکمت والا ہے،137 ۔
135 ۔ (اے حکام) اجرائے حدود شرعی وقصاص کا حق صرف اہل حل وعقد یا حکومت اسلامی کے حکام ہی کو حاصل رہتا ہے، اس لیے خطاب بھی قدرۃ انہی سے ہے۔ خطاب مع قوم فیحتمل ان یکون واقعا علی شخص متعین منھم وھو امام الزمان کمایذھب الیہ الاکثرون (کبیر) (آیت) ” السارق والسارقۃ “۔ لا کر یہ بتا دیا گیا ہے کہ مجرم قابل تعزیر کی حیثیت سے مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں، یہ نہ ہوگا کہ مجرم اگر عورت ہے تو اس کی سزا کچھ بڑھا دی جائے یا عورت ہونے کی بنا پر اس کی سزا کچھ گھٹا دی جائے۔۔ دوسری قوموں کے قانون میں مرد و عورت کے درمیان سزا کی عدم مساوات کی مثالیں کثرت سے ملیں گی، سرقہ اپنے لغوی معنی میں تو مطلقا ہر چوری کو کہیں گے۔ لیکن اصطلاح شریعت میں اس سے مراد ہوتی ہے غیر کے مال کو کسی خاص جگہ سے اور کسی خاص مقدار میں چرا کرلینا، السرقۃ اخذمالیس لہ اخذہ فی خفاء وصار ذلک فی الشرع لتناول الشیء من موضع مخصوص وقدر مخصوص (راغب) قد ثبت عندنا ان الحکم متعلق بمعنی غیر الاسم یجب اعتبارہ فی ایجابہ وھو الحرز والمقدار (جصاص) ان دوقیدوں کے لگ جانے سے ایسی بیسیوں چیزیں جو ہر جگہ اور ہر مقدار میں مل جاتی ہیں، ان کی چوری، چوری کی فقہی تعریف سے خارج ہوگئی، پھر چوری کے ثبوت کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک جرم کا اقرار، دوسرے عادل گواہوں کی شہادت السرقۃ انما تظھر باحد الامرین اما بالبینۃ او بالاقرار (محیط) جس چوری پر حد جاری ہوگی، اس کی مالیت حنفیہ کے ہاں کم از کم ایک دینار یا دس درہم کی ہونا چاہیے، اور اس چیز کو کسی محفوظ مقام میں ہونا چاہیے، اور خود وچور جس پر حد واجب ہوگئی، اسے عاقل وبالغ ہونا چاہیے، اذا سرق العاقل البالغ عشرۃ دراھم اومایبلغ قیمتہ عشرۃ دراھم مضروبۃ من حرز لاشبھۃ فیہ وجب القطع (ہدایہ) حفاظت عرف عام کے تابع ہے، کوئی جامع ومانع معیار اس کا خارج میں موجود نہیں۔ الحرز ھو مانصب عادۃ لحفظ اموال الناس وھو یختلف فی کل شیء بحسب حالہ (قرطبی) فقہاء نے اور بھی متعدد شرطیں، کتاب وسنت کے مزاج کو سمجھ کر اور انہیں سے اخذ کرکے لگائی ہیں، حنفی فقہ میں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :۔ ( 1) چور عاقل وبالغ ہو۔ بچہ اور مجنون پر حد نہیں ہے۔ (2) مال نظر بچا کرلے گیا ہو، کھلے خزانہ چھین جھپٹ کر نہ لے گیا ہو، غاصب اور اچکے کی سزائیں دوسری ہیں، حد سرقہ نہیں، (3) مال کسی کی ملک ہونا چاہیے، غیر مملوک مال (مثلا کفن جو کسی کی ملک نہیں ہوتا) کی چوری سرقہ مستوجب الحد کی تعریف میں نہ آئے گی، (4) مال کسی غیر کی غیر مشترک ملک ہو، چور کے اپنے مال کے ساتھ مخلوط ومشترک نہ ہو، شوہر، بیوی، اولاد وغیرہ پر حد اسی لیے جاری نہ ہوگی، کہ ان کے مال کے ساتھ خلاط و اشتراک رہا کرتا ہے۔ (5) مال کسی حد اور درجہ تک حفاظت میں ہو، خواہ حقیقۃ (مثلا کسی سپاہی، چوکیدار وغیرہ کے پہرہ میں) خواہ حکما (مثلا مکان کے اندر، صندوق کے اندر وغیرہ) سرراہ کھلے اور پڑے ہوئے مال کے اٹھا لینے پر حد سرقہ جاری نہ ہوگی، چوکیدار، پہرہ دار وغیرہ اگر چوری کریں، تو وہ خیانت کی دفعہ میں ملزم ہوں گے، حد سرقہ کے مستوجب نہ ہوں گے۔ علماء متکلمین نے آیت سے یہ بھی نکالا ہے کہ امت کے لیے نصب امام ضروری ہے۔ اس لیے کہ اجرائے حدود کا حکم درجہ فرض میں ہے، اور اجراء کی صورت اجماع امت سے طے ہوچکا ہے کہ افراد سے ممکن نہیں، اس لیے امام معین کا ہونا لازمی ہے۔ احتج المتکلمون بھذہ الایۃ فی انہ یجب علی الامۃ ان ینصبوا لانفسھم امام معینا والدلیل علیہ انہ تعالیٰ اوجب بھذہ الایۃ اقامۃ الحد علی السراق والزناۃ فلابد من شخص یکون مخاطبا بھذا الخطاب واجمعت الامۃ علی انہ لیس لاحاد الرعیۃ اقامۃ الحدود علی الجناۃ بل اجمعوا علی انہ لا یجوز اقامۃ الحدود علی الاحرار الجناۃ الاللامام (کبیر) (آیت) ” فاقطعوا ایدیھما “۔ چوری کی سزا میں پہلی بار داہنا ہاتھ پہونچے سے کاٹا جائے گا، دوسری بار کی چوری میں بایاں پیر ٹخنہ سے قطع کردیا جائے گا، اس کے بعد کی چوریوں میں فقہاء نے سنت ہی سے اخذ کرکے لکھا ہے کہ اب مزید سزا اقطع اعضاء کی نہیں۔ بلکہ قید کی دی جائے گی، چوری کی سزا، قطع ید، عرب میں قبل سے جاری تھی، اسلام نے آکر اسے قائم رکھا، اور اس میں چند قیودوشرائط کا اضافہ کردیا، وقد کان القطع معمولا بہ فی الجاھلیۃ فقرر فی الاسلام ویزید شروط اخر۔ (ابن کثیر) دنیا کے او قانونوں اور دوسری تہذیبوں میں بھی چوری کی یہ سزا کہیں تو ایک طویل مدت کی اسیری رہی ہے، اور کہیں جلاوطنی اور کہیں قطع اعضاء اور کہیں پھانسی یا اور کسی طریقہ سے ہلاکت رہی ہے۔ 136 ۔ (آیت) جزآء بما کسبا “۔ چوری شریعت اسلامی میں ایک بدترین جرم ہے، اسلام نے فرد وجماعت دونوں کے لیے امن وامان اور سکون خاطر کا جو بہترین وکامل تیرن نظام قائم کیا ہے، چور اس میں رخنہ ڈالنا، اور اس ساری فضا کو درہم وبرہم کر ڈالنا چاہتا ہے آیت کے اس ٹکڑے نے واضح کردیا کہ چوری کا بدبخت مجرم ہے ہی ایسی سخت سزا کا مستحق، شریعت موسوی کا قدم بھی اس باب میں کچھ پیچھے نہیں، کچھ آگے ہی ہے نقب زن کی جان سے امان اٹھ جاتی ہے۔ کوئی اگر اسے قتل کرڈالے تو اس کے خون کا بدلہ نہ لیاجائے گا۔ ” اگھر چور سیند مارتے ہوئے دیکھاجائے اور کوئی اسے مار بیٹھے اور وہ مرجائے تو اس کے لیے خون نہ کیا جائے گا “۔ (خروج۔ 22:2) اجازت ہی نہیں، ایک جگہ تو حکم تک نقب زن کے قتل کا ملتا ہے۔” اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں بنی اسرائیل میں سے کسی کو چرانے میں پکڑا جائے اور اس کا بیوپار کرے یا اسے بیچ ڈالے تو چور مارا جائے۔ اور تو شرکو اپنے درمیان سے دفع کر “۔ (استثناء۔ 24:7) (آیت) ” نکالا من اللہ “۔ نکال کہتے ہیں ایسے عذاب وسزا کو جس سے دوسرے عبرت حاصل کریں، ای مایوجب ان ینکل بہ عن ذلک الفعل (قرطبی) ای عظمۃ من اللہ بما عوقبا بہ لمن راھما (ابن قتیبہ) فلسفہ تعزیر کے واقفین جانتے ہیں کہ مجرم کے لیے سزا کی تجویز کرنے میں دو بڑے پہلو پیش نظر ہوتے ہیں :۔ ایک انتقامی، یعنی مظلوم یا مستغیث کے جذبات کی تسکین، دوسرے انتظامی، یعنی آئندہ کے ممکن مجرموں کی حوصلہ فرسائی وہمت شکنی (آیت) ” نکالا من اللہ “۔ اسی دوسرے پہلو کی تاکید وتقویت کے لیے ہے۔ اور پھر (آیت) ” من اللہ “۔ سے اشارہ یہ بھی ہوگیا، کہ یہ خدائی فیصلہ ہے۔ بندوں کو اس میں ترمیم وتنسیخ کا حق حاصل نہیں۔ (آیت) ” جزآء۔ نکالا “۔ دو لفظ الگ الگ آئے، اور دونوں مفعول لہ، بلا عطف میں، علماء بلاغت نے کہا ہے کہ جزاء میں اشارہ الی ان فیہ حق العبد کے اتلاف کا ہے، اور نکال میں حق اللہ کے اتلاف کا، والجزاء اشارۃ الی ان فی حق العبد والنکال اشارۃ الی ان فیہ حق اللہ تعالیٰ ۔ (روح) 137 ۔ صف (آیت) ” عزیز “۔ لاکر یہ یاددلا دیا کہ اللہ حاکم مطلق ہے۔ وہ جس جرم کی جو سزا چاہیے، مقرر کردے، کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا، اور صفت (آیت) ” حکیم “۔ سے اشارہ اس طرف کردیا کہ اس کا کوئی سا بھی حکم حکمتوں اور مصلحتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لیے اس نے چوری کی بھی سزا وہی مقرر کی، جو فرد اور جماعت دونوں کی مصلحتوں کے عین مطابق ہے۔ امام رازی (رح) نے اس مقام پر اصمعی کے حوالہ سے یہ حکایت نقل کی ہے کہ میں زبان سے (آیت) ” غفور رحیم “ نکلا۔ بدوی نے کہا کہ یہ کس کا کلام ہے ؟ میں نے کہا کلام الہی ہے۔ اس پر وہ بولا، کہ اسے دوبارہ پڑھو، میں نے پھر پڑھا، اور اب مجھے تنبیہ ہوگئی کہ بجائے (آیت) ” عزیزحکیم “۔ کہ میری زبان سے (آیت) ” غفور رحیم “ نکل گیا تھا، بدوی نے کہا کہ بیشک اب ٹھیک پڑھا، میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ چلا۔ اس نے جواب دیا کہ سیاق کلام سے۔ یہاں جب ذکر سزا و عقاب کا ہے، تو عین مقتضائے بلاغت یہی ہے کہ صفات بجائے غفور ورحیم کے عزیز و حکیم ہی لائی جائیں۔
Top