Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) خدا کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھالیا کرو۔
(118 ۔ 121) ۔ یہاں سے آخر رکوع تک کی آیتوں کی جو کچھ شان نزول ترمذی اور داؤد مستدرک حاکم طبرانی ابن ماجہ مسند بزار تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عکرمہ کے قول کے موافق بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش اور فارس کے لوگوں میں دوستی تھی اس دوستی کے سبب سے فارس کے مجوس نے قریش سے یہ کہلا بھیجا کہ تم ان نبی پر یہ اعتراض کرو کہ اپنا ذبح کیا ہوا جانور کھانا اور خدا کا مارا ہوا جانور نہ کھانا یہ کونسا دین ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں قریش کا جواب جو ان آیتوں میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس واسطے وہ پاک اور حلال ہے بتوں کے نام پر جو جانور ذبح کیا جاوے یا جو جانور اپنی موت سے مرجاوے بہ سبب اس کے کہہ اللہ کا نام اس پر نہیں لیا گیا وہ حرام اور نجس ہے ان آیتوں میں شیطان مجوس کو فرمایا اور شیطان کے دوست قریش کو فرمایا قریش کی جگہ بعض روایتوں میں یہود کا نام جو بعض مفسروں نے ذکر کیا ہے وہ شاید کسی راوی کے سہو سے ہے کیونکہ اول تو یہود مردار جانوں کے حلال ہونے کے قائل نہیں جو ان کو اس جھگڑے کی ضرورت ہو دوسرے یہ آیتیں مکی ہیں اور یہود سے اور آنحضرت سے جھگڑا آنحضرت کے مدینہ میں آنے کے بعد پیدا ہوا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی بعض روایتوں میں اصل شیاطین کا ذکر جو کیا گیا ہے 3 ؎ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل شیاطین نے مجوس کو بہکایا اور مجوس نے قریش کو بہکایا اس صورت میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ان کے شاگرد عکرمہ کے قول میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا بعضے مفسروں نے آیت ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ کو آیت وطعام الذین اوتوالکتاب حل لکم (5۔ 5) سے منسوخ جو قرار دیا ہے اس کا فیصلہ حافظ ابوجعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں کردیا ہے کہ کوئی آیت ان میں منسوخ نہیں ہے بلکہ پہلی آیت کے عام حکم میں سے مستثنے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کو مسلمانوں کے لیے حلال فرما دیا ہے اہل کتاب کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا ذکر مفصل سورة بقرہ اور سورة مائدہ میں گذر چکا ہے۔ ان آیتوں میں یہ جو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کو تفصیل وار پہلے بیان کردیا ہے جمہور مفسرین کا یہ قول ہے کہ اس تفصیل سے وہ تفصیل مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ کی آیت حرمت علیکم المیتتہ (5۔ 3) میں فرمائی ہے مگر امام فخر الدین رازی نے اس قول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ سورة مائدہ سورتوں سے آخر میں اتری ہے یہ تفصیل تو ایسی کسی آیت میں چاہے جو سورة انعام سے پہلے اتری ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ تفصیل پہلے گذر چکی جو اب اس اعتراض کا علمائے مفسرین نے یہ دیا ہے کہ جب ترتیب قرآن میں سورة مائدہ سورة انعام سے پہلے ہے تو سورة انعام میں خدا تعالیٰ کا یہ حوالہ دینا کہ حرام چیزوں کی تفصیل سورة مائدہ میں گذر چکی ہے وہ حوالہ ترتیب کے موافق ہے کیونکہ صحیح روایتوں سے ثابت ہوا ہے کہ یہ ترتیب وہی ترتیب ہے جو ترتیب صحابہ نے آنحضرت سے سنی ہے اور اسی ترتیب کے موافق آنحضرت ہر سال حضرت جبرئیل کو قرآن سنایا کرتے تھے اور حضرت جبرئیل لوح محفوظ کی ترتیب کے موافق آنحضرت سے قرآن سنا کرتے تھے غرض جب لوح محفوظ کی ترتیب میں سورة مائدہ سورة انعام سے مقدم ہے تو فقط نزول کے خیال سے کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے ہاں ناسخ منسوخ میں نزول کا مقدم موخر ہونا معتبر ہے ناسخ منسوخ کی یہاں بحث نہیں ہے اگرچہ ترمذی نے اس شان نزول کی روایت کو حسن غریب کہا ہے لیکن اس روایت کی گئی سندیں ہیں جس کے سبب سے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ حرام حلال کی تفصیل جب سورة مائدہ میں معلوم ہوچکی ہے تو پھر ہر ایمان دار آدمی کا چاہئے کہ اس کی پابندی کرے اور مردار کھانے والے لوگ جو حد شرع کے خود بھی پابند نہیں ہیں اور دوسروں کو بھی بہکانا چاہتے ہیں ان کی پیروی سے بچے کیونکہ ایسے لوگوں کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے وقت مقررہ پر علم الٰہی کے موافق وہ لوگ اپنی اعمال کی سزا بھگتیں گے پھر فرمایا کچھ حرام حلال جانوروں پر ان لوگوں کا حد سے بڑھ جانا منحصر نہیں ہے بلکہ سوا شرک کے ان لوگوں میں کھلی اور چھپی اور باتیں بھی حد سے بڑھ جانے کی ہیں مثلا کھلم کھلا طواف کے وقت ننگے ہوجانے کو اور چھپ کر بدکاری کرنے کو یہ لوگ کچھ گناہ نہیں سمجھتے اس لئے ہر ایمان دار کو چاہئے کہ ان مشرکوں کے کھلے اور چھپے اور گناہوں سے بھی پرہیز کرے تاکہ قیامت کے دن ان کی طرح ان گناہوں کی سزا مسلمان شخص کو نہ بھگتنی پڑے۔ پھر فرمایا جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا جاوے ہر ایمان دار کو چاہئے کہ ایسے جانور کا گوشت نہ کھاوے کیونکہ ایسے جانور کا گوشت کھانا گناہ ہے۔ پھر فرمایا جو کوئی اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو نہ مانے گا اور بہکانے والوں کے بہکاوے میں آن کر مردار جانور کا گوشت حلال کے طور پر کھانے میں ان مشرکوں کا شریک حال بن کہنا مانا۔ یہ ذکر مردار جانور کے حلال کے طور پر بغیر لاچاری کی حالت کے کھانے کا ہے لاچاری کی حالت میں حکم سورة بقر اور سورة مائدہ میں گذر چکا ہے اس لیے ان آیتوں میں لاچاری کی حالت کو الا ما اضطررتم الیہ فرما کر مسثنیٰ کردیا امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عالم یذکر اسم اللہ علیہ کی تفسیر مردار جانور کی فرمائی ہے آیت کی شان نزول کی روایت جو اوپر گذری اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مردار جانور کے جھگڑے پر یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں اس واسطے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ تفسیر شان نزول کے موافق اور نہایت صحیح ہے۔ بعضے مفسروں نے مسلمانوں کے ذبح کئے ہوئے ان جانوروں کو بھی آیت کی تفسیر ٹھہرایا ہے جن جانوروں کے ذبح کے وقت عمدا یا سہوا بسم اللہ اللہ اکبر نہ کہا ہو مگر حافظ ابوجعفر ابن جریر نے اس تفسیر کی صحیح نہیں قراردیا۔ مسلمان شخص کا ذبح کے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کا کہنا فرض ہے یا سنت اس میں سلف کا اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے۔ صحیح بخاری نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے نو مسلم لوگوں نے کچھ گوشت تحفہ کے طور کا صحابہ کے پاس بھیجا ان صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے یہ ذکر کیا کہ ان نو مسلم لوگوں کی حالت سے ہم کو شبہ پڑتا ہے کہ انہوں نے ذبح کیوقت اللہ کا نام لیا یا نہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس گوشت کے کھاتے وقت تم بسم اللہ کہہ کر اس کو کھاؤ۔ اب اس میں تو سب علماء متفق ہیں کہ کھانے کے وقت بسم اللہ کا کہنا اس کے متعلق اس تقریر کو پیش کر کے بعضے علماء نے ذبح کے وقت بسم اللہ کے سنت ہونے کے مذہب کو ترجیح دی ہے
Top