Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Haaqqa : 44
وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِۙ
وَلَوْ تَقَوَّلَ : اور اگر بات بنا لیتا۔ بات گھڑ لیتا عَلَيْنَا : ہم پر بَعْضَ : بعض الْاَقَاوِيْلِ : باتیں
اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لائے
44۔ 52۔ جس طرح اوپر گزرا کہ اہل مکہ قرآن کر شاعر یا کاہن کا کلام کہتے تھے اسی طرح وہ لوگ ایک بات یہ بھی کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے دل سے یہ باتیں جوڑ لی ہیں جن باتوں کو انہوں نے کلام الٰہی مشہور کیا ہے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں دیا اور فرمایا کہ غیب سے اس دین کی دن بدن مدد ہوتی چلی جاتی ہے دن بدن یہ دین ترقی پکڑتا جاتا ہے اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ رسول ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کیونکہ صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک جو مدد غیبی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی فرمائی ہے وہی مدد رسول کی ہر وقت ہر باب میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے جس طرح یہ قریش کے لوگ کہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو لوگوں کے جھٹلانے سے پہلے اللہ تعالیٰ ہی جھوٹ کی سزا میں ان کو ہلاک کر ڈالتا اور تم میں سے کوئی ان کو بچا نہ سکتا لیکن حالت تو یہ ہے کہ جس طرح اور رسولوں کی غیب سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مدد فرمائی ہے اسی طرح سے ان کی مدد غیب سے دن بدن ہو رہی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر ایک قوم کے لئے آنحضرت ﷺ کے نبی ہونے کی یہی ایک دلیل کافی ہے کہ جس زمانہ میں آنحضرت ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا اسی زمانہ میں مسیلمہ کذاب اور اسود غسی ان دو شخصوں نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اوپر ان دو شخصوں کا قصہ گزر چکا ہے کہ آخر کس ذلت سے یہ دونوں مارے گئے اور آنحضرت ﷺ کی سچی نبوت کا جو انجام ہوا وہ آج بھی ہر قوم کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے اور قیامت تک رہے گا۔ تقول بات بنانے کو کہتے ہیں۔ سزا دیتے وقت مجرم کا سیدھا ہاتھ اس کے قابو میں رکھنے کیلئے پکڑ لیتے ہیں اس لئے سیدھے ہاتھ کے پکڑنے کا ذکر فرمایا۔ وتین رگ دل کو کہتے ہیں جس کے کٹ جانے کے بعد آدمی نہیں بچتا۔ اس کو ترجمہ میں ناڑ کہا ہے۔ اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کے جھٹلانے والوں کا حسرت اور ندامت کا حال جو کچھ قیامت کے دن ہوگا اس کا ذکر سورة فرقان میں گزر چکا ہے آخر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو معبود کی تسبیح پڑھنے کا حکم فرمایا ہے جس نے ایسا بےمثل کلام اپنے رسول پر اتارا۔ یہ تسبیح اس لئے کہ اللہ کی اس نعمت کا کچھ تو شکر ادا ہو۔
Top