Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 46
وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ
وَقَفَّيْنَا : اور ہم نے پیچھے بھیجا عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے نشان قدم بِعِيْسَى : عیسیٰ ابْنِ مَرْيَمَ : ابن مریم مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے مِنَ : سے التَّوْرٰىةِ : توریت وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْاِنْجِيْلَ : انجیل فِيْهِ : اس میں هُدًى : ہدایت وَّنُوْرٌ : اور نور وَّمُصَدِّقًا : اور تصدیق کرنے والی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے مِنَ : سے التَّوْرٰىةِ : توریت وَهُدًى : اور ہدایت وَّمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور ہم نے (ان انبیاء کے) قدم بقدم مریم کے بیٹے عیسیٰ کو چلایا جو اپنے سے پہلے (نوشتوں) کی تصدیق کرتے تھے توریت (وغیرہ) کی اور ہم نے ان کو انجیل دی تھی جس میں ہدایت اور نور تھا اور (وہ انجیل) اپنے سے اگلی چیزوں کی تصدیق کرتی تھی توریت (وغیرہ) کی اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت و نصیحت بھی تھی
ترکیب : وکتبنا اے فرضنا ‘ ان النفس تقتل بالنفس خبر ان جملہ مفعول کتبنا والعین معطوف ہے النفس اسم ان پر۔ اور اسی طرح پر الانف اور الاذن اور السن اور الجروح معطوف ہیں فمن تصدق شرط فہو کفارۃ لہ جواب۔ بعیسی متعلق ہے قفینا سے۔ تفسیر : توریت کی مدح فرما کر اس کے بعض احکام کا بیان یہود پر تعریضاً کرتا ہے کہ دیکھو تم ان احکام کے بھی پابند نہیں جس طرح یہود نے زنا کی سزا میں یہ کر رکھا تھا کہ غریب کو قتل کرتے تھے اور امیر یا ذی عزت کو صرف تشہیر کرکے چھوڑ دیتے تھے۔ اسی طرح قصاص کے بارے میں شریف کو غیر شریف کے بدلے میں قتل نہیں کرتے تھے۔ مدینہ کے آس پاس یہود کے دو گروہ رہتے تھے۔ ایک بنی قریظہ۔ دوسرا بنی نضیر۔ بنی نضیر ذرا اپنی کسی فوقیت پر نازاں تھے۔ اس لئے اگر کوئی بنی قریظہ میں سے کسی بنی نضیر کو قتل کرتا تھا تو اس کے بدلے میں قاتل کو برابر قتل کرتے تھے اور جو بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر ڈالتا تھا تو قاتل صرف دیت لے کر چھوڑ دیا جاتا تھا اور عرب کے قبائل میں بھی یہی جہالت تھی کہ شریف کو وضیع کے بدلے میں قتل نہیں کرتے تھے اس لئے ان آیات میں توریت کے قصاص کے متعلق احکام بیان فرما کر ان کو خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے۔ وکتبنا علیہم فیہا۔ اس توریت میں بھی یہ حکم ہے سفر استثناء کے 19 باب 21 درس میں یہ ہے اور تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان ٗ آنکھ کا بدلہ آنکھ ٗ دانت کا بدلہ دانت ٗ ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پائوں کا بدلہ پائوں ہوگا اور سفر خروج کے 22 باب 24‘ 25 درس میں یوں ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پائوں کے بدلے پائوں ‘ جلانے کے بدلے جلانا ‘ زخم کے بدلے زخم ٗ چوٹ کے بدلے چوٹ۔ علماء اسلام نے اصول فقہ میں اس آیت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی جس قدر شریعتیں منسوخ نہیں ہیں امت محمدیہ کو انہیں ماننا چاہیے بشرطیکہ ان شرائع کو قرآن نے یا پیغمبر (علیہ السلام) نے نقل کیا ہو کیونکہ کتب سابقہ محرف ہوگئیں۔ ان پر وثوق نہیں ہوسکتا (نور الانوار) چونکہ قصاص کے اس مسئلہ کو خداوند تعالیٰ نے بحوالہ توریت شریف ذکر فرمایا ہے سو یہی حکم اسلام میں بھی جاری ہے۔ ہر عضو کے بدلے دوسرے کا وہی عضو کاٹا جاوے گا۔ آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ دانت کے بدلے دانت ‘ ہاتھ کے بدلے ہاتھ ‘ والجروح قصاص اور زخم کے بدلے زخم دیا جاوے گا مگر جس زخم کے دینے سے موت کا خوف ہو یا اس زخم کا طول و عرض و عمق معلوم نہ ہو سکے تو ان صورتوں میں زخم دینے والے کو ایسا زخم دینا متعذر سمجھ کر اس سے تاوان لیا جاوے گا جس کو شرع میں ارش کہتے ہیں۔ باقی اس ارش کی مقدار اور اس کے متعلق دیگر مسائل جزئیہ جو آئمہ دین نے قرآن و احادیث سے استنباط کرکے نکالے ہیں کتب فقہ میں کمال تشریح کے ساتھ مذکور ہیں جو چاہے وہاں دیکھ لے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور اکثر اہل علم نے اس آیت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ خواہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرے خواہ کسی کافر ذمی کو قتل کرے یا کسی غلام یا عورت کو قتل کرے خواہ بڈھے یا لڑکے یا بیمار کو قتل کرے ان سب کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جاوے گا۔ کس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جان کے بدلے جان فرمائی ہے اور جانیں سب کی برابر ہیں اور یہی بات اصول سلطنتِ آسمانی کے موافق ہے اور تمدن کے لئے بھی نہایت نافع ہے۔ فمن تصدق بہ فہو کفارۃ لہ یعنی جو شخص اپنے ہاتھ یا کسی عضو کاٹ دینے والے کو یا زخم لگانے والے کو معاف کر دے اور اپنا بدلہ نہ چاہے تو یہ اس معاف کرنے والے کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں اس مظلوم کے گناہ معاف کر دے گا۔ بعض کہتے ہیں لہ کی ضمیر قاتل کی طرف پھرتی ہے کہ یہ معاف کرنا زخم کرنے والے کے لئے کفارہ ہوگیا۔ اب اس سے کچھ بدلہ نہ لیا جاوے گا مگر معنی اول سیاق عبارت سے نہایت مناسبت رکھتے ہیں۔ مظلوم کے معاف کرنے پر انتقام کا حاکم وقت کو مجاز ہے کہ نہیں : اس مقام پر ایک اور بحث ذکر کرنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ اگر مظلوم نے یا اس کے وارثوں نے قاتل یا زخم دینے والے سے دستبرداری کرلی ٗ معاف کردیا تو اس صورت میں حاکم کو بھی اس کو انتظاماً کوئی سزا دینے کا مجاز ہے یا نہیں ؟ یہ تو بالاتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قاتل قتل سے اور زخم دینے والا زخم سے محفوظ رہے گا مگر تہدیداً قید یا کوئی اور سزا بھی حاکم کے اختیار میں ہے ؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ نہیں کیونکہ اب اس پر کوئی مطالبہ باقی نہیں رہا مگر محققین کہتے ہیں حاکم کو بھی تہدیداً سزا دینے کا اختیار ہے نہ مقتول و مجروح کے حقوق کی وجہ سے بلکہ امن عام میں خلل پیدا کرنے کی وجہ سے قتل و زخم کی سزا سے کم سزا مالی یا جسمانی قید وغیرہ کا مجاز ہے۔ جب توریت کی ایسی حالت اور یہود کی ایسی نوبت تھی تو ان کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل شریف دے کر بھیجا۔ اس لئے فرماتا ہے وقضینا علی آثارھم بعیسٰی بن مریم الخ عیسیٰ کی مدح میں مصدقالما بین یدیہ من التوراۃ فرمایا کہ وہ اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتے تھے۔ اس مقام پر اہل کتاب کہتے ہیں کہ گو توریت کا حوادث مذکورہ میں کچھ ٹھیک نہیں رہا مگر جب کہ مسیح نے اس کی شہادت دی تو توریت گم شدہ پائی گئی۔ میں کہتا ہوں کہ کہیں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے توریت کو ہاتھ میں لے کر یہ کہا ہو کہ یہ وہی اصلی توریت ہے۔ بلاتغیر جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ کسی موقع پر اس کی بعض آیات سے استدلال کرنا یا توریت کو منجانب اللہ کہنا اور اس کی مدح فرمانا سو ایسا حضرت عیسیٰ نے ضرور کیا ہوگا مگر اس سے اس مجموعہ کا اصلی اور بلاکم و بیش توریت موسیٰ ہونا لازم نہیں آتا اور کسی شے کی تصدیق کرنا یہ نہیں چاہتا کہ اس چیز کا وجود خارج میں بھی موجود ہو بلکہ وجود ذہنی کافی ہے مثلاً آج جو ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کریں تو اس سے یہ لازم نہ آئے گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) شام میں موجود بھی ہوں مگر مسیح کے بعد جو حوادث قیاصرہ روم کی طرف سے پڑے ان میں تلف ہوجانے کے بعد پھر موجود ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور آتیناہ الانجیل اس میں صاف بیان ہے کہ انجیل وہ کتاب آسمانی ہے کہ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی جس میں یہ چار وصف تھے فیہ ھدی ونور ومصدقالما بین یدیہ من التوراۃ وھدی وموعظۃ کہ اس میں ہدایت اور نور اور تصدیق اور نصیحت تھی اور اسی انجیل پر اہل اسلام کا ایمان ہے۔ انجیل پر بحث : پس یہ جو آج چار شخصوں کی تاریخیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد لوگوں نے ان کے حالات میں لکھیں جن کو انجیل متی انجیل مرقس انجیل لوقا انجیل یوحنا کہتے ہیں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی وہ انجیل نہیں کہ جو ان پر نازل ہوئی تھی کیونکہ یہ کتابیں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے روبرو بھی نہیں لکھی گئیں بلکہ بہت زمانہ بعد۔ علاوہ اس کے خود عیسائیوں کے فرقوں میں بہت سی مختلف انجیلیں کہ جن کی تعدادسو سے زیادہ ہے اس بات پر صریح دلیل ہے کہ ہر شخص اپنی تصنیف کو انجیل کہا کرتا تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی انجیل اگر ان کے پاس سے حوادث قیاصرہ میں گم نہ ہوجاتی تو اس تصانیف کی بنام نہاد انجیل کچھ ضرورت نہ پڑتی۔ خود ان چاروں کتابوں کی بھی تسلیم اور عدم تسلیم میں باہم بہت کچھ اختلاف رہا کیونکہ پہلی صدیوں ہی میں جعلی انجیلوں کی تصانیف کا بازار گرم تھا۔ اس لئے عیسائیوں کا پولوس مقدس اس بات کی بہت کچھ شکایت کرتا ہے کہ لوگوں نے خداوند کی انجیل کو پلٹ دیا۔ وہ اپنی ایک اور انجیل بتاتا ہے اور اس کے سوا اور انجیلوں کے سننے والے پر لعنت کرتا ہے۔ پھر ان چاروں انجیلوں میں بھی جو کچھ تحریفات اور کمیاں اور بیشیاں ہیں ان کا بھی خود عیسائی علماء کو اقرار ہے۔ پادری فنڈر گریسباخ وغیرہ کے حوالہ سے ہزاروں سہو اور اغلاط کا اختتام مباحثہ دینی اکبر آباد میں مقر ہے۔ پس جب ان کا یہ حال ہے تو پولوس وغیرہ حواریوں کے خطوط تو کسی طرح بھی علمائِ اسلام کے عقیدہ کے بموجب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی انجیل نہیں ہوسکتی۔ واضح ہو کہ آنحضرت ﷺ کے عہد میں عرب کے بعض قبائل عیسائی تھے جیسا کہ یمن میں اور بخران میں بنی حارث اور یمامہ میں بنی حنظلہ اور تیمیہ میں بنی طے اور تغلب وغیرہ قومیں مگر ان سب کے پاس فرقہ ملینکیون اور ابیونوں اور سریانی اور مصری اور ارمنی عیسائیوں کی اناجیل تھیں نہ یہ اناجیل سو ان کی تو کسی طرح سے قرآن میں تصدیق نہیں کیونکہ اسی زمانہ میں ابیونی اور مانکیز وغیرہ فرقہ تھے جن کو یہ فرقہ پر انسٹنٹ جو سولہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوا خود بدعتی اور گمراہ بتلاتا ہے ولیحکم اھل الانجیل یعنی جو دلائل تمہاری کتابوں میں آنحضرت ﷺ کی نبوت پر دالّہ ہیں تم ان کے مطابق حکم دو ورنہ تمہارے دعوے کے موجب تم فاسق ہو۔ کافر اور فاسق اور ظالم تین وصف خدا کے حکم پر عمل نہ کرنے والے کے بلالحاظ حقوق اللہ و حقوق العباد فرمائے۔
Top