Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور دیکھنا غافل نہ ہونا۔
205۔ اللہ پاک نے قرآن مجید پڑھنے کے وقت خاموش رہنے کا حکم دے کر اپنے رسول صلعم کو خطاب فرمایا کہ صبح وشام اپنے رب کو جی میں یاد کرو اور نہایت ہی خلوص کے ساتھ گڑگڑا کر ہو اور یہ یاد الٰہی بہت چلا کر نہ ہو کیونکہ مشرکین قرآن کو سن کر خدا اور اس کے رسول کو برا کہتے ہیں نہ اتنا چیخ کر پڑھو کہ وہ لوگ سن کر برا کہیں اور نہ اتنا آہستہ پڑھو کہ تمہارے ساتھ کے لوگ بھی نہ سن سکیں اللہ پاک نے قرآن میں اکثر جگہ بیان فرمایا ہے کہ میں تو پکارنے والے کے رگ گردن سے بھی نزدیک ہوں صحیحین میں ابوموسیٰ اشعری کی حدیث ہے کہ لوگوں نے بعض مرتبہ سفر میں بلند آواز سے دعائیں مانگنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا کہ اے لوگو اپنے جی کو روکو تم ایسے کو نہیں پکار رہے ہو جو بہرہ ہے یا غائب کہیں دور ہے بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تو بہت جلد سن لیتا ہے اور نہایت ہی قریب ہے تمہاری سواریوں کی گردنوں سے بھی زیادہ نزدیک تر ہے 1 ؎۔ صبح وشام کا حکم اس واسطے دیا گیا ہے کہ جب انسان سو کر اٹھے تو پہلا شغل اس کا ذکر اللہ رہے کیونکہ موت میں نیند میں تھوڑا ہی فرق ہے سونے والا اور مردہ برابر ہوتا ہے اہل علم نیند کو اخ الموت کہتے ہیں بہر حال شام کو بھی جب سونے لگے تو خدا کی یاد کے بعد سوئے ممکن ہے کہ سونے کے بعد پھر اٹھنا نصیب نہ ہو ہمیشہ کے لئے خواب عدم ہی میں رہے بعضے علماء نے صبح وشام کے فوائد میں یہ بیان کیا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد اور عصر کے بعد اور نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے خدا کا حکم ہوا کہ اس وقت خدا کی یاد کیا کرو تاکہ کوئی وقت خدا کے ذکر سے خالی نہ جائے اور بعضوں نے یہ بیان کیا ہے کہ بندوں کے عمل صبح وشام اٹھائے جاتے ہیں رات کے عمل صبح کے وقت اور دن کے عمل شام کے وقت اس لئے مستحب ہے کہ صبح وشام خدا کا ذکر کیا جاوے تاکہ عمل کی ابتدا اور اس کا اختتام خدا کے ذکر ہی پر ہو صحیح بخاری ومسلم میں ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو لوگ یاد الٰہی سے غافل ہیں ان کی مثال مردہ لوگوں کی سی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کا نیک عمل بند ہوجاتا ہے اس لئے جیتے جی جن لوگوں نے یاد الہی جیسے نیک عمل کو چھوڑ رکھا ہے ان کا نیک عمل مردوں کی طرح بند ہے۔ ذکر الہی کی فضیلت اور تاکید میں اور ذکر الٰہی سے غفلت کی مذمت میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں یہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں کیونکہ آیت میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ذکر الہی کا حکم فرما کر اس سے غفلت کرنے کو منع فرمایا ہے امت کے حق میں وہی بات ان حدیثوں میں اللہ کے رسول نے فرمایا ہے :۔ 1 ؎ مشکوٰۃ جل 196 باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ۔
Top