Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ : کیا نہیں نَجْعَلِ : ہم نے بنایا الْاَرْضَ : زمین کو مِهٰدًا : فرش
کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا
6۔ 11۔ اوپر ذکر تھا کہ حشر اور قیامت کی باتوں کو خلاف عقل خیال کرکے اسلام لانے سے پہلے مکہ کے لوگ ان باتوں میں آنحضرت ﷺ سے طرح طرح کی حجتیں کرتے تھے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں دنیا کے چند عجائبات کا ذکر فرمایا ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور جن کی حالت کے دیکھنے سے بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل دنگ ہے کسی کی عقل میں نہیں آسکتا ہے کہ اتنی بڑی سات زمینوں کو پانی پر بچھونے کی طرح کیونکر بچھایا ہے۔ اور ان کے ٹکنے اور جم جانے کے لئے اتنے اتنے بڑے پہاڑوں کی میخیں ان میں کو نکر ٹھونکی ہیں کہ جس طرح خیمہ کی میخیں ٹھونک دینے سے خیمہ خوب مضبوط اور چورس ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پہاڑوں کی میخوں سے زمین خوب چورس اور مضبوط ہوگئی ‘ ہلتی جلتی نہیں۔ انسان کو مرد اور عورت کی صورت میں کس طرح پیدا کیا کہ ایک سے دوسرے کی شباہت بالکل الگ ہے۔ ایک حضرت آدم اور حوا کے جسم میں افزائش نسل کا یہ مادہ کیونکر رکھا گیا جس سے قیامت تک کی نسل چلے گی۔ آدمی کے مرجانے اور مرجانے کے بعد جینے کی نشانی کے لئے سونے اور جاگنے کو کس طرح پیدا کیا ہے پھر ایسے صاحب قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ جس طرح اس نے سرے سے بغیر کسی نمونہ کے ایک دفعہ یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ اسی نمونہ کے موافق جو کچھ چاہے پھر پیدا کر دے۔ کیونکہ جب ایک چیز کا نمونہ قرار پا کر پیدائش دنیا سے اس کے ختم ہوجانے تک ہزارہا برس تک وہ نمونہ چل چکا ہے تو پھر دوبارہ اسی چیز کا بنانا نہایت سہل ہے اسی لئے سورة روم میں فرمایا وھوالذی یبد و الخلق ثم یعیدہ وھوا ھون علیہ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے تجربہ کے موافق بھی اسی طرح دوبارہ ہر چیز کا بنانا سہل ہے ورنہ اللہ کی قدرت کے آگے تو سب کچھ سہل اور آسان ہے اور یہ دوبارہ پیدائش اسی واسطے ضرور ہے کہ دنیا کی پیدائش سے اس کے ختم تک جو کچھ نیکی بدی دنیا میں ہوئی ہے اس کی جزا و سزا ہوجائے اور دنیا کی پیدائش بلا نتیجہ نہ رہے چناچہ اسی مطلب کو سورة جاثیہ میں ان لفظوں سے ادا فرمایا ہے۔ وخلق اللہ السموت والارض بالحق ولتبزی کل نفس بماکسبت وھولا یظلمون جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد نیک و بد کا انصاف نہ ہوتا تو یہ ایک بےانصافی تھی کیونکہ نیکی کا ثمرہ بدی کی پرسش کچھ بھی نہ ہوتا۔ یہ خلاف انصاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس ارادہ سے پیدا کیا ہے کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد ایک دن نیک و بد کا انصاف ہو کر جزا و سزا ہوجائے اور دنیا کا پیدا کرنا ناانصافی کی بنیاد پر نہ رہے۔ سبات کہتے ہیں راحت اور سکون کو۔ نیند سے تھکان رفع ہو کر ایک طرح کی راحت حاصل ہوجاتی ہے ‘ اس لئے نیند کو سبات فرمایا رات کو لباس اس لئے فرمایا کہ جس طرح کپڑا بدن کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح رات کا اندھیرا ہر چیز پر چھا جاتا ہے اور دن کو روز گار کا موقع محل اس لئے فرمایا کہ اس میں چل پھر کر آدمی ہر طرح گزران کی صورت نکال سکتا ہے اگر رات کی طرح دن کو بھی اندھیرا رہتا تو آدمی دنیا کا کوئی کام دھندا نہ کرسکتا تھا۔ مسند امام احمد و ترمذی 1 ؎ میں ابوہریرہ ؓ سے اور مسند بزار وغیرہ میں عباس اور ابوذر سے اور مستدرک حاکم میں عمرو بن بن العاص سے جو روایات ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک اور اسی طرح ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ ہے اور ہر آسمان کا فاصلہ بھی اسی قدر ہے۔ زمنیوں میں پانسو پانسو برس کے راستہ کے ٹکڑے کو حاکم نے صحیح کہا ہے اور باقی کے ٹکڑے کی چند روایتیں ہیں جن میں ایک سے دوسری روایت کو تقویت ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے ان اہل ہیئت کا قول بےاصل ٹھہرتا ہے جو کہتے ہیں کہ زمینوں کے مابین کچھ فاصلہ نہیں ہے۔ اسی طرح صحیح 2 ؎ بخاری وغیرہ میں صحابہ کی ایک جماعت سے روایات ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی کی دبا لے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں کے اسی قدر ٹکڑے کا ایک طوق بنا کر ایسے شخص کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ آیت اللہ الذی خلق سمع سموت ومن الارض مثلھن اور ان حدیثوں سے ان متکلمین کا قول غلط قرار پاتا ہے جو زمین کے ایک ہونے کے قائل ہیں۔ ترمذی 3 ؎ وغیرہ میں جو حضرت انس ؓ سے روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب زمین پانی پر بچھائی گئی تو وہ ہلتی تھی اس واسطے اس کی مضبوطی کے لئے پہاڑ پیدا کرکے میخوں کی طرح اس میں ٹھونکے گئے۔ اگرچہ اس کیس ند میں ایک شخص سلیمان بن ابی سلیمان مجہول ہے۔ لیکن آیت والقی فی الارض رواسی ان تمیدبکم سے اور مسند 4 ؎ عبد الرازق میں جو بعض آثار ہیں ان سے اس روایت کی پوری تائید ہو کر سلیمان کی مجہولیت کسی قدر رفع ہوجاتی ہے سورة انبیاء میں گزر چکا کہ پہاڑوں کی میخیں زمین میں اس حکمت سے ٹھونکی گئی ہیں کہ پہاڑوں میں گھاٹیاں بھی رکھی گئی ہیں تاکہ پھرنے چلنے کا راستہ بند نہ ہو۔ صحیح بخاری 5 ؎ وغیرہ میں جو حضرت عائشہ سے روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اہل مکہ کی شرارتوں سے بہت تنگ آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال کو آپ ﷺ کے پاس بھیجا۔ اس فرشتے نے آپ ﷺ سے کہا کہ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو مکہ کے ارد گرد کے دو پہاڑوں میں اہل مکہ کو بھینچ کر ان کا کام تمام کر دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں نہیں ‘ مجھ کو تو اللہ کی ذات سے یہ توقع ہے کہ ان لوگوں کی نسل میں وہ لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کو وحدہ لاشریک اور مجھے اس کا رسول جانیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور خدمتوں کی تعیناتی کی طرح پہاڑوں کے انتظام پر بھی فرشتوں کا ایک خاص گروہ تعینات ہے اور ملک الجبال اسی گروہ کے سردار کا لقب ہے۔ (1 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الحدید ص 185 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب اثم من ظلم شیئا من الارض ص 331‘ 332 ج 1۔ ) (3 ؎ جامع ترمذی اواحر ابواب التیرار ص 198 ج 2۔ ) (4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 565 ج 2 و تفسیر ابن جریر ص 90 ج 14۔ ) (5 ؎ صحیح بخاری۔ باب بعد باب ذکر الملئکۃ ص 488 ج 1۔ )
Top