Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 118
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ١ۚ وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَ : اور عَلَي : پر الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو لوگ یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کیا مَا قَصَصْنَا : جو ہم نے بیان کیا عَلَيْكَ : تم پر (سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَ : اور مَا ظَلَمْنٰهُمْ : نہیں ہم نے ظلم کیا ان پر وَلٰكِنْ : بلکہ كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنے اوپر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
اور ان لوگوں پر جو یہودی ہوئے ہم نے وہ چیزیں حرام کیں جو ہم نے تجھ پر اس سے پہلے بیان کی ہیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا اور لیکن وہ اپنے آپ ہی پر ظلم کرتے تھے۔
وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا۔۔ : حافظ ابن کثیر ؓ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان پر حرام کردہ چیزوں مردار اور خون وغیرہ کا ذکر فرمایا اور صرف مجبوری کے وقت انھیں جائز قرار دینے کا ذکر فرمایا، تاکہ امت پر آسانی رہے تو اس کے بعد یہودیوں پر ان چیزوں کے حرام کرنے کا ذکر فرمایا، جن کا ذکر پہلے سورة نساء (160) اور سورة انعام (146) میں گزر چکا ہے، جو پاکیزہ اور حلال ہونے کے باوجود ان کی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کی گئی تھیں اور اس اصر و اغلال میں شامل تھیں جو ان کی سرکشی کی وجہ سے ان پر لادے گئے تھے۔ پھر ہمارے نبی کریم ﷺ کے آنے پر ان کی حرمت ختم ہوئی اور صرف وہ چیزیں حرام کی گئیں جن کا حرام کرنا بطور سزا نہیں بلکہ بطور مصلحت و رحمت تھا۔ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (160، 161) اس سے یہودیوں کے اس دعویٰ کی بھی تردید ہوگئی کہ ان پر حرام کردہ چیزیں ہمیشہ سے حرام چلی آرہی ہیں، اس لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (93)۔
Top