Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 86
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِیْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ١ۚ فَاَلْقَوْا اِلَیْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَۚ
وَاِذَا : اور جب رَاَ : دیکھیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا (مشرک) شُرَكَآءَهُمْ : اپنے شریک قَالُوْا : وہ کہیں گے رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں شُرَكَآؤُنَا : ہمارے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنَّا نَدْعُوْا : ہم پکارتے تھے مِنْ دُوْنِكَ : تیرے سوا فَاَلْقَوْا : پھر وہ ڈالیں گے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْقَوْلَ : قول اِنَّكُمْ : بیشک تم لَكٰذِبُوْنَ : البتہ تم جھوٹے
اور جب وہ لوگ جنھوں نے شریک بنائے اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے رب ! یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنھیں ہم تیرے سوا پکارا کرتے تھے۔ تو وہ ان کی طرف یہ بات پھینک ماریں گے کہ بلاشبہ یقینا تم جھوٹے ہو۔
وَاِذَا رَاَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۔۔ : کفار جب اپنے ان شریکوں کو دیکھیں گے جنھیں وہ مدد کے لیے پکارتے رہے اور اللہ کا شریک بناتے رہے، یا جن کے بتوں یا قبروں کو پوجتے اور سجدہ و طواف کرتے رہے، جیسا کہ صحیح بخاری (4288) میں ذکر ہے کہ مشرکین مکہ نے کعبہ کے اندر ابراہیم اور اسماعیل ؑ کے بت بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن مشرکین ان بزرگوں کو دیکھیں گے تو اپنے جرم کو ہلکا کرنے اور اپنے بنائے ہوئے داتاؤں و دستگیروں کو اس جرم میں ساتھی بنانے کے لیے کہیں گے، پروردگار ! یہ لوگ ہیں جنھیں ہم تیرے سوا پکارا کرتے تھے۔ وہ سب کے سب فوراً سختی سے کہیں گے، بلاشک و شبہ یقیناً تم جھوٹے ہو۔ فوراً کا مفہوم ”فَاَلْقَوْا“ کی فاء سے ظاہر ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرک انھیں پکارتے تو رہے ہیں، پھر وہ انھیں جھوٹا کیوں کہیں گے ؟ جواب اس کا ایک تو یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے سوا کسی کو پکارتا ہے اسے یعنی اس کے بنائے ہوئے داتا و دستگیر کو معلوم ہی نہیں کہ کوئی اسے پکار رہا ہے، نہ انھیں ان کا پکارنا سنائی دیتا ہے، تو وہ انھیں جھوٹا نہ کہیں تو کیا کہیں ؟ دیکھیے سورة فاطر (13، 14) اور سورة احقاف (5، 6) دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شریک کہیں موجود ہی نہیں، ہر مشرک خواہ بت پرست ہو یا قبر پرست، ولی پرست ہو یا نبی پرست، وہ محض اپنے خیالی بنائے ہوئے حاجت رواؤں، مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے، حقیقت میں ان کا کہیں کوئی وجود نہیں، اس لیے وہ انبیاء و اولیاء اور ان کے بنائے ہوئے داتا و دستگیر انھیں صاف جھوٹا کہیں گے کہ تم ہمیں نہیں بلکہ اپنے وہم و گمان اور خیال کو پکارتے اور پوجتے رہے ہو۔ دیکھیے سورة یونس (66) اور سورة نجم (23) رہا شیطان تو اس نے واقعی انھیں شرک کی دعوت دی تھی، مگر وہ نہایت بےحیائی کے ساتھ ان سے صاف بےتعلق ہوجائے گا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (22)۔
Top