Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 45
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا
يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّمَسَّكَ : تجھے آپکڑے عَذَابٌ : عذاب مِّنَ : سے۔ کا الرَّحْمٰنِ : رحمن فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے لِلشَّيْطٰنِ : شیطان کا وَلِيًّا : ساتھی
اے میرے باپ ! بیشک میں ڈرتا ہوں کہ تجھ پر رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپڑے، پھر تو شیطان کا ساتھی بن جائے۔
يٰٓاَبَتِ اِنِّىْٓ اَخَافُ۔۔ : چوتھی بات یہ کہ اسے بت پرستی کے برے انجام اور اس کے وبال اور عذاب سے ڈرایا اور اس میں بھی حسن ادب کو ملحوظ رکھا۔ صاف الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ تم پر عذاب آپڑے گا، بلکہ فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمٰن کی طرف سے کوئی عذاب آ لگے اور پھر تو شیطان کا ساتھی بن جائے۔ یہاں ”میں ڈرتا ہوں“ اور ”کوئی عذاب آ لگے“ کے الفاظ قابل غور ہیں کہ وہ کتنی سخت بات کو کس قدر نرمی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ پھر یہ بات کہ عذاب کا نتیجہ شیطان کا دوست اور ساتھی بننا ہوگا۔ معلوم ہوا کہ شیطان کا ساتھی بننا عذاب سے بھی بدتر ہے۔ یہ آخری نصیحت بھی ”يٰٓاَبَتِ“ کے پیارے الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ (زمخشری)
Top