Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 45
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا
يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّمَسَّكَ : تجھے آپکڑے عَذَابٌ : عذاب مِّنَ : سے۔ کا الرَّحْمٰنِ : رحمن فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے لِلشَّيْطٰنِ : شیطان کا وَلِيًّا : ساتھی
ابّا مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو خدا کا عذاب آپکڑے تو آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں
یا ابت انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن اے میرے باپ مجھے ڈر ہے کہ رحمن کی طرف سے کوئی عذاب آپ پر (نہ) آجائے ‘ یعنی اگر آپ کفر اور شیطان کی اطاعت پر قائم رہیں گے تو رحمن کی طرف سے (باجودیکہ اس کی رحمت رحمت کاملہ ہے) کوئی سخت عذاب آجائے گا مجھے اس کا اندیشہ ہے اس کی رحمت اگرچہ فرماں برداروں پر بہت زیادہ ہے لیکن سرکش نافرمانوں پر اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔ فتکون للشیطن ولیا۔ پھر آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں گے۔ شیطان پر دنیا میں جو لعنت ہے وہ آپ پر بھی ہو جائے گی اور آخرت میں جو عذاب شیطان پر ہوگا آپ پر بھی ہوگا وہ اس طرح آپ کے ساتھ شیطان کا اور شیطان کے ساتھ آپ کا جوڑ اور اتصال ہوجائے گا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ آیت میں شیطان کے صرف نافرمان ہونے کا ذکر کیا ‘ دوسرے جرائم کا ذکر نہیں کیا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اللہ کی نافرمانی ہی تمام جرائم کی جڑ ہے اسی سے سب جرائم پیدا ہوتے ہیں یا یہ وجہ ہو کہ حضرت آدم اور ان کی اولاد سے دشمنی کا نتیجہ بصورت معصیت نکلا (پس جو شیطان رب کا نافرمان انسان کی دشمنی کی وجہ سے ہو اس کی پوجا انسان کے لئے کسی طرح زیبا نہیں وہ تو دشمن ہے) ۔
Top