Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے ایمان والو ! جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہو فوج کشی کی صورت میں تو پھر ان سے پیٹھ مت پھیرو
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلاَ تُوَلُّوْھُمُ الْاَدْبَارَ ۔ ج وَمَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَخَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْمُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰہُ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔ (الانفال : 15، 16) (اے ایمان والو ! جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہو فوج کشی کی صورت میں تو پھر ان سے پیٹھ مت پھیروجو کوئی ان سے پیٹھ پھیرے اس دن مگر یہ کہ جنگ کے لیے پینترا بدلنا چاہتاہویا کسی جماعت کی طرف سمٹ رہا ہو تو وہ لوٹا اللہ کا غضب لے کر اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ ) عرب میں جنگ کے دو معروف طریقے عرب میں جنگ کے دو معروف طریقے تھے۔ ایک طریقہ تو وہ تھا جس میں باقاعدہ دو منظم فوجیں آمنے سامنے منظم طریقے سے لڑتی تھیں۔ ایسی جنگ میں عرب بھی بھاگ نکلنے کو عار سمجھتے تھے۔ جو قبیلہ بھی کسی منظم جنگ میں پشت دکھاتا اور بھاگ نکلتا تھا مدتوں تک وہ عربوں کے سامنے سر اٹھا کر نہیں چل سکتا تھا۔ شاعر ہجو کے ذریعے اس کا جینا مشکل کردیتے تھے۔ ان کے شعرا کی زبانیں شرم کی وجہ سے گنگ ہو کر رہ جاتی تھیں۔ ایسی ہی جنگ کے بارے میں یہاں فرمایا جارہا ہے کہ جب تمہاری کافروں سے ایسی کوئی جنگ ہو تو دیکھنا کبھی پشت نہ دکھانا اور جو شخص یا جو فوج ایسا کرے گی وہ اللہ کے غضب کی سزا وار ہوگی۔ مسلمان ہونے کے باوجود ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور یہ کون نہیں جانتا کہ جہنم کتنا بر اٹھکانہ ہے۔ البتہ ! اس میں دو باتوں کا استثناء کیا گیا ہے۔ 1: متحرفا لّقتال … 2: متحیزاً الی فئۃٍ یعنی پشت پھیرنا صرف دو حالتوں میں جائز ہے۔ تحرف کسی ایک جانب مائل ہونے کو کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کا کمانڈر محسوس کرتا ہے کہ دشمنوں کی فوجی ترتیب توڑنے کے لیے اپنی فوج کو قدم قدم پیچھے ہٹایا جائے جس سے دشمن اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ مسلمان شاید پسپائی اختیار کرنے والے ہیں۔ اس کی صفیں بکھر کر مسلمانوں کو گھیرنے کی کوشش کریں تو جیسے ہی اس کی صفوں میں شگاف پڑے تو مسلمان یکبارگی حملہ کردیں ایسی پسپائی جو کسی جنگی چال کے لیے یا پینترا بدلنے کے لیے ہو اس کی اجازت دی گئی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اپنی فوج کا ایک پہلو کمزور دیکھ کر اسے پیچھے ہٹنے کی ترغیب دیں اور اسے اس بازو کے ساتھ ملا دیا جائے جس کی طاقت اس سے بہتر ہو اور یا پیچھے سے کمک پہنچنے کے انتظار میں وقتی طور پر فوج کے کسی دستے کو پیچھے ہٹالیاجائے۔ یہ دوسری شکل ہے جسے اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حرام صرف میدانِ جنگ سے فرار ہے لیکن میدانِ جنگ میں ایسی تبدیلی اور ایسی پہلو تہی جو بہتر جنگ کا پیش خیمہ ہو اس کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ جنگی حکمت عملی کے تحت اس کی تحسین بھی کی جانی چاہیے۔ جنگ کی دوسری قسم گوریلا وار ہے۔ جسے عربی زبان میں ” کرّوفرّ “ کی جنگ کہتے ہیں۔ یہ منظم فوج کشی نہیں ہوتی بلکہ چھوٹے چھوٹے دستے دشمن کو پریشان کرنے کے لیے نکلتے ہیں یا جنگی فوائد حاصل کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ ان کے پیش نظر جم کر لڑنا نہیں ہوتا بلکہ وہ تیزی سے حملہ کرتے ہیں اور اپنا مقصد پورا کرکے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی مخصوص ضابطہ نہیں ہوتا۔ پس جس طرح کامیاب چھاپہ مارا جاسکے اور اپنے آپ کو بچایا جاسکے وہی اس کا اصلی ہنر ہے۔ یہ طریقہ اس وقت بھی رائج تھا اور آج بھی رائج ہے۔ کمزور قوتیں عموماً یہ طریقہ اختیار کرتی ہیں۔ اس میں پسپائی اور بھاگ کھڑا ہونا کہیں بھی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ احکام میں تخفیف ان آیتوں میں پسپائی کی حرمت کے بارے میں اور جنگ کے پہلو تہی کے حوالے سے جو سخت احکام دیئے گئے ہیں یہ جنگ بد رکے زمانے کی بات ہے۔ ان احکام کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہے کتنی بڑی تعداد سے مقابلہ درپیش ہو اور دشمن چاہے کتنا بھی زبردست کیوں نہ ہو کسی صورت بھی دشمن کے مقابلے سے بھاگنا بدترین حرام ہے۔ لیکن اس کے بعد سورة الانفال ہی میں تخفیف کے احکام نازل ہوئے۔ چناچہ آیت نمبر 66 میں فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے آسانی کردی اور تمہاری کمزوری کے پیش نظر یہ قانون جاری کردیا کہ اگر مسلمان سو آدمی ثابت قدم ہوں تو دو سو کفار پر غالب آسکیں گے اس میں اشارہ کردیا کہ اپنے سے دوگنی تعداد تک تو مسلمانوں کے ہی غالب رہنے کی توقع ہے اس لیے پشت پھیرناجائز نہیں ہاں ! فریقِ مخالف کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہوجائے تو ایسی حالت میں میدان چھوڑ دینا جائز ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) نے فرمایا کہ جو شخص اکیلا تین آدمیوں کے مقابل سے بھاگا وہ بھاگا نہیں ہاں جو دو آدمیوں کے مقابلہ سے بھاگا وہ بھاگنے والا ہے یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ اب یہی حکم قیامت تک باقی ہے۔ جمہور امت اور ائمہ اربعہ کے نزدیک حکم شرعی یہی ہے کہ جب تک فریقِ مخالف کی تعداد دوگنی سے زائد نہ ہو اس وقت تک میدانِ جنگ سے بھاگنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
Top