Tafseer-e-Usmani - Az-Zumar : 45
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا
يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّمَسَّكَ : تجھے آپکڑے عَذَابٌ : عذاب مِّنَ : سے۔ کا الرَّحْمٰنِ : رحمن فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے لِلشَّيْطٰنِ : شیطان کا وَلِيًّا : ساتھی
اے باپ میرے ڈرتا ہوں کہیں آلگے تجھ کو ایک آفت رحمان سے پھر تو ہوجائے شیطان کا ساتھی7
7 یعنی رحمان کی رحمت عظیمہ تو چاہتی ہے کہ تمام بندوں پر شفقت و مہربانی ہو، لیکن تیری بداعمالیوں کی شامت سے ڈر ہے کہ ایسے حلیم و مہربان خدا کو غصہ نہ آجائے اور تجھ پر کوئی سخت آفت نازل نہ کر دے جس میں پھنس کر تو ہمیشہ کے لیے شیطان کا ساتھی بن جائے یعنی کفر و شرک کی مزاولت سے آئندہ ایمان و توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو اور اولیاء الشیطان کے گروہ میں شامل کر کے دائمی عذاب میں دھکیل دیا جائے۔ عموماً مفسرین نے یہ ہی معنی لیے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی کفر کے وبال سے کچھ آفت آئے اور تو مدد مانگنے لگے شیطان سے یعنی بتوں سے، اکثر لوگ ایسے ہی وقت شرک کرتے ہیں۔ " واللّٰہ اعلم۔
Top