Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 70
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اِلَّا : سوائے مَنْ تَابَ : جس نے توبہ کی وَاٰمَنَ : اور وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے اس نے عَمَلًا صَالِحًا : نیک عمل فَاُولٰٓئِكَ : پس یہ لوگ يُبَدِّلُ اللّٰهُ : اللہ بدل دے گا سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں حَسَنٰتٍ : بھلائیوں سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا۔۔ : ابن عباس ؓ نے فرمایا : ”اہل شرک میں سے کچھ لوگوں نے قتل کیے اور بہت کیے اور زنا کیے اور بہت کیے، پھر وہ محمد ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ”آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں یہ بتادیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے ؟“ تو یہ آیت اتری : (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ۔۔) [ الفرقان : 68 ] اور یہ آیت اتری : (يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ) [ الزمر : 53 ] ”اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ۔“ [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ۔۔ : 122 ] یہ آیت ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں، یہی عام معافی کا دن تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں انسانوں کو سہارا دے کر مستقبل کے بگاڑ سے بچا لیا اور انھیں امید کی روشنی دکھا کر اصلاح پر آمادہ کیا۔ اگر ان سے کہا جاتا کہ جو گناہ تم کرچکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح بچ نہیں سکتے تو وہ ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھنس جاتے۔ توبہ کی اس نعمت نے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی ﷺ کے زمانے میں پیش آئے، عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں : ”جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی محبت میرے دل میں ڈال دی تو میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی : ”اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے، تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔“ آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے عمرو ! تجھے کیا ہوا ؟“ میں نے کہا : ”میری ایک شرط ہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تیری کیا شرط ہے ؟“ میں نے کہا : (أَنْ یُّغْفَرَ لِیْ ، قَالَ أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمْرُو ! أَنَّ الإِْسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ؟ وَ أَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا ؟ وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قبْلَہُ ؟) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ و کذا الھجرۃ والحج : 121 ] ”(میری شرط یہ ہے) کہ میرے گناہ معاف ہوں (جو اب تک کیے ہیں)۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے عمرو ! کیا تو جانتا نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو ختم کردیتا ہے ؟ اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ؟ اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے ؟“ 3 اللہ تعالیٰ نے برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے کے لیے تین شرطیں رکھی ہیں، پہلی توبہ، یعنی گناہ سے باز آجانا، گزشتہ گناہوں پر ندامت اور آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا عزم۔ دوسری شرط ایمان ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول ہی نہیں اور تیسری شرط عمل صالح ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔ ”عَمَلًا صَالِحًا“ نکرہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ”اور عمل کیا، کچھ نیک عمل۔“ شاہ عبد القادر ؓ نے ترجمہ کیا ہے ”اور کیا کچھ نیک کام۔“ اس میں بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ اور ایمان کے ساتھ تھوڑے عمل صالح کی بھی بہت قدر ہے۔ فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں انھیں گناہوں کی جگہ نیکیوں کی توفیق دے گا، کفر اور شرک کی جگہ وہ ایمان اور توحید پر قائم ہوں گے، مومنوں کو قتل کرنے کے بجائے میدان جنگ میں کفار کو قتل کریں گے۔ زنا کی جگہ پاک دامنی پر، جھوٹ کی جگہ صدق پر اور نافرمانی کی جگہ فرماں برداری پر قائم ہوں گے۔ (و علی ہذا القیاس) یہ تفسیر ابن عباس ؓ سے معتبر سند کے ساتھ طبری نے نقل فرمائی ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے تمام گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا، یہ تفسیر رسول اللہ ﷺ سے آئی ہے۔ ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنِّيْ لَأَعْلَمُ آخِرَ أَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ ، وَآخِرَ أَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنْھَا، رَجُلٌ یُؤْتٰی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَیُقَالُ اعْرِضُوْا عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہِ وَارْفَعُوْا عَنْہُ کِبَارَھَا، فَتُعْرَضُ عَلَیْہِ صِغَارُ ذُنُوْبِہِ ، فَیُقَالُ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا، کَذَا وَ کَذَا، وَ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا، کَذَا وَ کَذَا، فَیَقُوْلُ نَعَمْ ، لَا یَسْتَطِیْعُ أَنْ یُّنْکِرَ ، وَھُوَ مُشْفِقٌ مِنْ کِبَارِ ذُنُوْبِہِ أَنْ تُّعْرَضَ عَلَیْہِ ، فَیُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَکَ مَکَانَ کُلِّ سَیِّءَۃٍ حَسَنَۃً ، فَیَقُوْلُ رَبِّ ! قَدْ عَمِلْتُ أَشْیَاءَ لَا أَرَاھَا ھٰھُنَا، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أہل الجنۃ منزلۃ فیھا : 190 ] ”میں اس شخص کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخری اور جہنم سے نکلنے والوں میں سب سے آخری ہوگا، وہ ایسا آدمی ہوگا جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : ”اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ بچائے رکھو۔“ تو اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے اور کہا جائے گا : ”تو نے فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیے تھے اور فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیے تھے ؟“ وہ کہے گا : ”ہاں !“ انکار نہیں کرسکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش کیے جانے سے ڈر رہا ہوگا، تو اس سے کہا جائے گا : ”تمہارے لیے ہر برائی کی جگہ ایک نیکی ہے۔“ تو وہ کہے گا : ”اے میرے رب ! میں نے کئی کام کیے ہیں جو مجھے یہاں دکھائی نہیں دے رہے۔“ (ابو ذر ؓ کہتے ہیں) : ”تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔“ 3 اہل علم نے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ گناہ جتنی بار یاد آتے ہیں ان پر ندامت اور استغفار مسلسل نیکی ہے، اسی طرح توبہ کے بعد یہ عزم کہ آئندہ اگر موقع ملا تو میں ہمیشہ برائی کے بجائے نیکی کروں گا، یہ عزم ایسی نیکی ہے جو انسان کو جنت کا ابدی وارث بنا دیتی ہے۔ گزشتہ پر ندامت یا آئندہ کا عزم اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا باعث بن جائے گا۔ (بقاعی) ایک اور توجیہ یہ ہے کہ وہ شخص جس نے گناہ کیا ہی نہیں، مثلاً زنا یا چوری کی ہی نہیں، اسے گناہ سے بچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی، بخلاف اس شخص کے جو زنا کا مرتکب رہا ہے، اسے زنا چھوڑنے میں جس قدر دشواری پیش آتی ہے اسے برداشت کرنا اور گناہ نہ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : بظاہر گناہوں کو نیکیوں میں بدلنا بعید معلوم ہوتا ہے، اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا اور بیحد رحم کرنے والا ہے، اس سے یہ کرم کچھ بھی بعید نہیں۔
Top