Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 70
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اِلَّا : سوائے مَنْ تَابَ : جس نے توبہ کی وَاٰمَنَ : اور وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے اس نے عَمَلًا صَالِحًا : نیک عمل فَاُولٰٓئِكَ : پس یہ لوگ يُبَدِّلُ اللّٰهُ : اللہ بدل دے گا سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں حَسَنٰتٍ : بھلائیوں سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
( الا من تاب وامن۔۔۔۔۔۔ ) الامن تاب وامن وعمل عملاً صالحا ً علماء میں سے کوئی اختلاف نہیں کرتا کہ استثناء کافر اور زانی میں عامل ہے مسلمانوں میں سے جو قاتل ہے اس کے بارے میں اختلاف ہے جس طرح اس کی وضاحت سورة النساء میں گزر چکی ہے، سورة مائدہ میں یہ قول گزر چکا ہے۔ عین میں جو استثناء ہو اس میں تراخی جائز ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ تعالیٰ کا قول ہے، وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ فاولیک یبدل اللہ سیاتھم حسنت نحاس نے کہا : اس کے بارے میں جو اقوال ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے سب سے بہترین یہ ہے کہ کافر کی جگہ مومن اور نافرمان کی جگہ مطیع لکھ دیا جاتا ہے۔ مجاہد اور ضحاک نے کہا : اللہ تعالیٰ شرک کو ایمان سے بدل دیتا ہے ؟ حضرت حسن بصری سے اسی کی مثل مروی ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : ایک قول یہ کہتی ہے یہ تبدیلی آخرت میں ہوگی، جب کہ معاملہ اس طرح نہیں یہ تبدیلی دنیا میں ہوگی اللہ تعالیٰ ان کے شرک کو ایمان سے بدل دیتا ہے، شک کو اخلاص سے بدل دیتا ہے اور فجورکو احصان سے بدل دیتا ہے۔ زجاج نے کہا : اس سے مراد یہ نہیں کہ سیئہ کی جگہ حسنہ رکھ دیتا ہے بلکہ سیئہ کی جگہ تو بہ رکھ دیتا ہے، اور حسنہ کو توبہ کے ساتھ رکھ دیتا ہے۔ حضرت ابو دائود ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے : ان السیئات تبدیل الحسنات، برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا جائے گا۔ اس کے ہم معنی روایت حضرت سلمان فارسی، سعید بن جبیر اور دوسرے علماء سے مروی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : یہ آخرت میں اس آدمی کے بارے میں ہوگا جس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب ہوجائیں گی، تو اللہ تعالیٰ برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ حدیث میں سے ” کچھ اقوام تمنا کریں گی کہ ان کی برائیں زیادہ ہوتیں “۔ عرض کی گئی : وہ کون ہیں ؟ فرمایا :” جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اسے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے، ثعلبی اور قشیری نے اسے ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، تبدیل سے مراد بخش ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کو سیئات کو بخش دے گا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیکیوں میں بدل دے گا۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ کے کرم سے یہ کوئی بعید نہیں کہ جب بندے کی توبہ صحیح ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سیئہ کی جگہ حسنہ رکھ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا : ” برائی کے بعد نیکی کرو جو اس برائی کو مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو “۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ذر ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو جنت میں سب سے آخر میں داخل ہوگا اور اس آدمی کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا۔ ایک آدمی کو قیامت کے روز لایا جائے گا، یہ کہا جائے گا : اس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور بڑے گناہوں کو اس سے اٹھا لواس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے، اسے کہا جائے گا : تو نے یہ عمل کیا اور تو نے فلاں فلاں دن یہ عمل کیا۔ وہ کہے گا : ہاں۔ وہ انکار کی طاقت نہیں رکھے گا۔ جب کہ وہ بڑے گناہوں کے پیش کرنے سے ڈر رہا ہوگا۔ اسے کہا جائے گا : تیرے لیے ہر برائی کی جگہ نیکی ہے۔ وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں نے کچھ ایسے عمل کیے ہیں جو میں نے یہاں نہیں دیکھے “۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ ابو طویل نے کہا :” یا رسول اللہ ﷺ ! ایسے آدمی کے بارے میں بتایئے جس نے ہر گناہ کیا ان میں سے کوئی چیز نہ چھوڑی اس نے چھوٹی بڑی کوئی خواہش نہ چھوڑی مگر اس کو پورا کیا اس کے لیے توبہ ہے ؟ فرمایا :” کیا تم نے اسلام قبول کیا “ اس نے عرض کی : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحدہ ٗ لا شریک ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرمایا :” ہاں۔ تو نیکیاں کرے گا اور برائیوں کو ترک کرے گا اللہ تعالیٰ سب کو نیکیاں بنا دے گا “۔ عرض کی : اے اللہ کے نبی ! میرے دھوکے اور میرے گناہ ؟ فرمایا : ہاں “۔ اس نے زبان سے نعرہ لگایا : اللہ اکبر ! وہ لگاتار یہ کلمات کہتا رہا یہاں تک کہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا، ثعلبی نے اسے ذکر کیا ہے۔ بشر بن عبید نے کہا : جو علم نحو اور لغت عربی سے آگاہ تھا ( وہ جانتا ہے) حاجہ سے مراد وہ امر ہے جو حاجی پر لازم ہوتا ہے جب وہ حج کے لیے جا رہے ہیں ہوں اور داجہ سے مراد وہ امر ہوتا ہے جو اس پر اس وقت لازم کیا جاتا ہے جب وہ واپس پلٹیں۔
Top