Al-Quran-al-Kareem - Faatir : 23
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کردیں جو اپنی معیشت پر اترا گئی تھیں، تو یہ ہیں ان کے گھر جو ان کے بعد آباد نہیں کیے گئے مگر بہت کم اور ہم ہی ہمیشہ وارث بننے والے ہیں۔
وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا۔۔ :”بَطَرٌ“ کا معنی ہے نعمت پر سرکشی اختیار کرنا، پھول جانا۔ اس کا معنی ناشکری اور انکار بھی آتا ہے۔ پہلا معنی ہو تو یہاں ”فِیْ“ محذوف ہوگا : ”أَيْ بَطِرَتْ فِيْ مَعِیْشَتِھَا۔“ حرف جار حذف ہونے سے ”مَعِیْشَتَھَا“ پر نصب آگئی۔ جیسا کہ سورة اعراف (155) میں ہے : (وَاخْتَارَ مُوْسٰي قَوْمَهٗ سَبْعِيْنَ رَجُلًا) ”أَيْ مِنْ قَوْمِہِ“۔ یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے، یعنی تم نے گمان کر رکھا ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں تم تباہ و برباد ہوجاؤ گے اور ایمان نہ لائے تو تمہاری شان و شوکت، سیادت و عزت، مال و دولت اور اعلیٰ درجے کی ترقی یافتہ معیشت محفوظ رہے گی۔ سو تمہارا یہ گمان غلط ہے، تم سے پہلے کتنی ہی اقوام، جو اپنی معیشت پر اترا گئی تھیں اور ان کے رہنے والے اپنی خوش حالی اور فارغ البالی کی بدولت بدمست ہوگئے تھے، مثلاً عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ، ہم نے انھیں ایسا ہلاک اور برباد کیا کہ ان کی بستیاں یہ تمہارے سامنے ہیں، ان میں ایسی نحوست ہے کہ ان کے بعد کوئی ان میں آباد ہی نہیں ہوا، مگر بہت کم کہ راہ چلتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے کوئی مسافر اترا اور پھر چل دیا۔ تمہیں ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ : یعنی ان میں سے کوئی باقی ہی نہیں رہا جو ان کے گھروں اور مال و دولت کا وارث بنے، فرمایا : (فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ) [ الحآقۃ : 8 ] ”تو کیا تو ان کا کوئی بھی باقی رہنے والا دیکھتا ہے ؟“ ان کے وارث ہم بنے اور ہر چیز کے وارث ہمیشہ ہم ہی ہوا کرتے ہیں۔ ”کُنَّا“ میں ”کَانَ“ استمرار اور ہمیشگی کے لیے ہے۔
Top