Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ
فَخَسَفْنَا : پھر ہم نے دھنسا دیا بِهٖ : اس کو وَبِدَارِهِ : اور اس کے گھر کو الْاَرْضَ : زمین فَمَا كَانَ : سو نہ ہوئی لَهٗ : اس کے لیے مِنْ فِئَةٍ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : مدد کرتی اس کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے وَمَا كَانَ : اور نہ ہوا وہ مِنَ : سے الْمُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، پھر نہ اس کے لیے کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرنے والوں سے تھا۔
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ : اللہ تعالیٰ کو اس کے تکبر کے اس مظاہرے پر ایسی غیرت آئی کہ اس نے اسے اور اس کے گھر کو جس میں اس کے اہل و عیال، نوکر چاکر اور خزانے تھے، سب کو زمین میں دھنسا دیا۔ قارون کی اس حالت پر وہ حدیث منطبق ہوتی ہے جو ابن عمر ؓ نے بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ مِنَ الْخُیَلاَءِ خُسِفَ بِہِ ، فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِي الْأَرْضِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : 3485 ] ”ایک آدمی اپنی چادر تکبر سے گھسیٹتا جا رہا تھا، تو اسی حالت میں اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔“ علمائے تفسیر کا رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد قارون ہے۔ 3 اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ تکبر سے چادر لٹکانا بھی اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند ہے کہ اگر اس کی رحمت نہ ہو تو ایسے آدمی کو زمین میں دھنسا دیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ کپڑا خود بخود ڈھلک جائے تو وہ تکبر نہیں، جیسا کہ ابوبکر صدیق ؓ کا کپڑا ڈھلک جاتا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم تکبر سے ایسا نہیں کرتے، مگر بعض لوگ جان بوجھ کر کپڑا لٹکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تکبر سے ایسا نہیں کرتے۔ ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنیے، جابر بن سلیم ؓ نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا : (وَارْفَعْ إِزَارَکَ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ إِیَّاکَ وَ إِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّہَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ وَ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ) [ أبو داوٗد، اللباس، باب ما جاء في إسبال الإزار : 4084، و صححہ الألباني ] ”اپنی چادر نصف پنڈلی تک اٹھاؤ، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اٹھاؤ، اور چادر لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر سے ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔“ اس سے ثابت ہوا کہ جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان سننے کے بعد اسے نہ ماننا اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا صاف تکبر ہے۔ جان بوجھ کر چادر لٹکانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ ابوذر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، قَالَ فَقَرَأَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ خَابُوْا وَخَسِرُوْا مَنْ ہُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ الْمُسْبِلُ إِزَارَہُ وَالْمَنَّانُ وَ الْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہُ بالْحَلِفِ الْکَاذِبِ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار۔۔ : 106]”تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ تین دفعہ فرمایا تو ابوذر ؓ نے کہا : ”وہ تو ناکام اور نامراد ہوگئے، یا رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اپنی چادر (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا اور احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ساتھ بیچنے والا۔“ 3 قرآن مجید کے بیان سے ظاہر ہے کہ اسے زمین میں دھنسانے کا باعث اس کا تکبر اور اس کے اظہار کے لیے اس کا اپنی زینت اور شان و شوکت کے ساتھ نکلنا تھا۔ مگر بعض مفسرین نے اس کی بغاوت اور سرکشی کے اور واقعات بھی بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ قارون نے ایک فاحشہ عورت کو اس شرط پر کچھ مال دیا کہ وہ موسیٰ ؑ پر بدکاری کی تہمت لگائے، جب وہ بنی اسرائیل میں کھڑے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کر رہے ہوں تو یہ عورت کہے کہ موسیٰ ! تم نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے۔ لہٰذا جب اس نے مجلس میں موسیٰ ؑ کو یہ بات کہی تو وہ ڈر کر کانپ اٹھے اور دو رکعتیں پڑھ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ”میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے سمندر کو پھاڑا اور تمہیں فرعون سے نجات دی اور فلاں فلاں احسانات کیے کہ تم ہر صورت وہ شخص بتاؤ جس نے تمہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے جو تم نے کہی۔“ اس نے کہا، جب آپ نے مجھ سے قسم دے کر پوچھا ہے تو قارون نے مجھے اتنا مال دیا ہے، اس شرط پر کہ میں آپ کو اس اس طرح کہوں اور میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں اور توبہ کرتی ہوں۔ اس پر موسیٰ ؑ سجدے میں گرگئے اور قارون کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی کی کہ میں نے زمین کو حکم دے دیا ہے کہ اس کے متعلق تمہارا حکم مانے تو موسیٰ ؑ نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جائے، تو ایسا ہی ہوا۔ ابن کثیر نے یہ واقعہ ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے۔ سند اس کی اچھی بھی ہو تو یہ ان کا قول ہے، انھوں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے نقل نہیں فرمایا اور ظاہر ہے کہ اس واقعہ کے وقت ابن عباس ؓ موجود نہیں تھے، بلکہ درمیان میں سیکڑوں ہزاروں سال کا فاصلہ ہے۔ اس لیے اس کے اسرائیلی روایت ہونے میں کوئی شک نہیں، جس پر یقین ممکن نہیں۔ خصوصاً اس لیے کہ اس میں قارون کا سمندر سے پار ہونا بھی مذکور ہے، جب کہ سورة مومن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجنے اور ان تینوں کے آپ کو جھٹلانے کا ذکر فرمایا ہے، پھر فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق فرمایا : (فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا) [ المؤمن : 45، 46 ] ”اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ جو آگ ہے، وہ اس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں۔“ اسی طرح سورة عنکبوت (39، 40) میں ان تینوں کے تکبر کی وجہ سے ایمان نہ لانے اور اپنے گناہوں میں پکڑے جانے کا ذکر ہے۔ غرض قرآن مجید سے قارون کے ایمان لانے یا سمندر سے پار جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا، بلکہ اس کے مسلسل جھٹلانے، تکبر کرنے اور اس کی پاداش میں زمین کے اندر دھنس جانے کا ذکر ہی ملتا ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا : ”یہاں بہت سی اسرائیلیات ذکر کی گئی ہیں جن سے ہم نے پہلو تہی کی ہے۔“ کاش ! ابن کثیر یہ اسرائیلیات بھی ذکر نہ کرتے جو انھوں نے ذکر کی ہیں۔ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ۔۔ : یعنی اس وقت نہ کوئی جماعت تھی جو اس کی مدد کو پہنچتی، نہ وہ خود اپنے آپ کو بچا سکا۔ اس کے نوکر چاکر، ساتھی اور دوست اس کے کسی کام نہ آسکے۔
Top