Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ : یعنی نبی ﷺ نے اگرچہ زید کو متبنّٰی بنایا، مگر وہ آپ کے بیٹے نہیں، نہ آپ اس کے حقیقی باپ ہیں، اس لیے انھیں زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ ہی کہو۔ نبی ﷺ کا کوئی بیٹا اتنی دیر زندہ نہیں رہا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ خدیجہ ؓ سے آپ ﷺ کے تین بیٹے قاسم، طیب اور طاہر پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ماریہ قبطیہ ؓ سے ابراہیم پیدا ہوئے، وہ بھی دودھ پینے ہی کی عمر میں فوت ہوگئے، بیٹیاں چار پیدا ہوئیں، جو خدیجہ ؓ کے بطن سے تھیں، یعنی زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ، تین آپ ﷺ کی زندگی میں فوت ہوگئیں اور فاطمہ ؓ نے آپ ﷺ کی وفات کا صدمہ دیکھا، پھر آپ ﷺ کے چھ ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ (ابن کثیر) مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ۔۔ : اس ایک آیت میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی کریم ﷺ پر کر رہے تھے، یا کرسکتے تھے۔ پہلا اعتراض یہ تھا کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، جب کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کو خود ہی حرام کہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا ”محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں“ یعنی آپ نے جس شخص (زید) کی مطلقہ سے نکاح کیا ہے وہ آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں، تم خود جانتے ہو کہ آپ ﷺ کا کوئی بیٹا نہیں، تو وہ بہو کیسے بن گئی ؟ دوسرا اعتراض یہ ہوسکتا تھا کہ متبنّٰی حقیقی بیٹا نہ سہی، مگر اس کی بیوی سے نکاح زیادہ سے زیادہ جائز تھا، آخر اس کا کرنا ضروری تو نہیں تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا ”اور لیکن وہ اللہ کا رسول ہے“ یعنی رسول ہونے کی وجہ سے اس کی ذمہ داری ہے کہ جن رسوم کی وجہ سے حلال چیزوں کو تم نے حرام کر رکھا ہے، ان کے باطل ہونے کا پیغام اپنی زبان کے ساتھ ہی نہیں اپنے عمل کے ساتھ بھی پہنچائے۔ پھر مزید تاکید فرمائی کہ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو یہ پیغام پہنچائے۔ اس لیے آپ پر لازم ہے کہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کا ہر پیغام پہنچا دیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، یعنی اسے خوب معلوم ہے کہ جاہلیت کی کس رسم کو کس طرح ختم کرنا ہے۔ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ۔۔ : یہ آیت صریح دلیل ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بالاولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ نبی عام ہے اور رسول خاص ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے جب کہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ کے آخری نبی ہونے کے متعلق بہت سے صحابہ کرام ؓ سے متواتر احادیث آئی ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو رسول اللہ ﷺ نے کذّاب قرار دیا، ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَاءِلُ مِنْ أُمَّتِيْ بالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی یَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ وَ إِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِيٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذّابون : 2219، و قال الألباني صحیح ] ”قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“ سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ سے کہا : (أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلَّا أَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب۔ : 2404 ] ”تم مجھ سے اس مرتبے پر ہو جس پر ہارون (ؑ) موسیٰ (ؑ) سے تھے، مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“ انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَ النُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَ لَا نَبِيَّ ، قَالَ فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ لٰکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ ، فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَ مَا الْمُبَشِّرَاتُ ؟ قَالَ رُؤْیَا الْمُسْلِمِ وَ ہِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاء النُّبُوَّۃِ) [ ترمذي، الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات : 2272، و قال الألباني صحیح الإسناد ] ”رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔“ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ نے فرمایا : ”لیکن مبشرات باقی ہیں۔“ لوگوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! مبشرات کیا ہیں ؟“ آپ نے فرمایا : ”مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہے۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ مَثَلِيْ وَ مَثَلَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِيْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَ أَجْمَلَہُ ، إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَ یَعْجَبُوْنَ لَہُ ، وَ یَقُوْلُوْنَ ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَۃُ ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَۃُ ، وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ) [ بخاري، المناقب، باب خاتم النبیین ﷺ : 3535 ] ”میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے ایک مکان بنایا، اسے ہر لحاظ سے خوب صورت بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور اس پر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی ؟ تو میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں۔“ یہ تمام احادیث اور دوسری بہت سی احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ رہا عیسیٰ ؑ کا نزول تو وہ ختم نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ انھیں نبوت آپ سے پہلے مل چکی ہے۔ اب وہ آپ کے امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کی شریعت پر چلیں گے۔ آج تک پوری امت کا یہی متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لیے ختم نبوت کا منکر قطعی کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔ 3 رسول اللہ ﷺ کے کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہونے اور خاتم النّبیین رسول ہونے کے درمیان ایک اور مناسبت بھی ہے، جو صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے بیان فرمائی ہے اور وہ مناسبت اللہ تعالیٰ کے ”بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا“ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ ؓ سے پوچھا کہ آپ نے نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : (مَاتَ صَغِیْرًا، وَ لَوْ قُضِيَ أَنْ یَّکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُہُ ، وَ لٰکِنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَہُ) [ بخاري، الأدب، باب من سمی بأسماء الأنبیاء : 6194 ] ”وہ چھوٹی عمر ہی میں فوت ہوگئے اور اگر فیصلہ ہوتا کہ محمد ﷺ کے بعد نبی ہو تو آپ کا بیٹا زندہ رہتا، لیکن آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔“ یہ بات اگرچہ ابن ابی اوفیٰ ؓ پر موقوف ہے، مگر یہ اپنی رائے سے کہنا مشکل ہے، کیونکہ نبی کا بیٹا نبی ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ نوح ؑ کے بیٹے تھے۔
Top