Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا۔ (الاحزاب : 40) (محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ) مخالفین کے اعتراضات کا جواب اور آنحضرت ﷺ کے منصبی تقاضے نبی کریم ﷺ کے حضرت زینب سے نکاح کے سلسلے میں جن لوگوں نے مخالفت کا طوفان اٹھایا اس کی سب سے بڑی بنیاد یہ تھی کہ زید نبی کریم ﷺ کے منہ بولا بیٹا ہونے کی وجہ سے حقیقی بیٹے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی بیوی حضور ﷺ کی بہو ہے تو طلاق کی صورت میں وہ ان سے نکاح کیسے کرسکتے تھے ؟ اسے بنیاد بنا کر انھوں نے عجیب و غریب الزامات لگائے اور کہانیاں تراشیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی بنیادی بات کا جواب دیا کہ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ حضرت زید کے باپ نہیں بلکہ وہ کسی مرد کے باپ نہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، آپ کی کوئی نرینہ اولاد زندہ نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو چار بیٹے دیے اور چاروں ہی بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ اس آیت کے نزول کے وقت تین بیٹے فوت ہوچکے تھے اور چوتھے حضرت ابراہیم بعد میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ اور رجال رجل کی جمع ہے، بالغ مردوں کو کہتے ہیں۔ اس طرح سے کلام میں زیادہ زور پیدا کرکے اس الزام کی تردید کی گئی کہ جب آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو کسی مطلقہ بہو سے شادی کرنے کا کیا سوال ہے۔ رہی یہ بات کہ چلیے یہ مان بھی لیا جائے کہ زید آپ کے بیٹے نہیں ہیں لیکن اہل عرب چونکہ منہ بولے بیٹے کو بیٹا ہی سمجھتے ہیں تو کیا ضروری تھا کہ آپ ﷺ ان کی مطلقہ سے نکاح کرتے اور بلاوجہ مخالفین کی مخالفت کو دعوت دیتے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ رسول دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہر قدم اٹھاتا اور ہر فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ہر بگڑی ہوئی چیز کو درست کرتا اور ہر صحیح چیز کو تقویت دیتا ہے۔ چونکہ یہ رسم جاہلی بہت سے مفاسد کا باعث تھی اس لیے رسول ہونے کی حیثیت سے آپ کی یہ ذمہ داری تھی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس رسم کا استیصال کرتے۔ قطع نظر اس سے کہ آپ کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی۔ تو اس پر کہنے والوں نے کہا کہ رسول تو پہلے بھی آئے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے، کیا ضروری تھا کہ آپ ہی اس رسم کے خاتمے کا ذریعہ بنیں۔ کوئی آنے والا رسول اس ذمہ داری کو ادا کرسکتا تھا جبکہ آپ کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں حالات بہت حد تک سازگار ہوچکے ہوتے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ صرف رسول ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ یعنی آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ آپ کے ہاتھوں اس سلسلۃ الذہب کی تکمیل ہوگئی ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہر ایسی رسم جس سے اسلامی تہذیب کو نقصان پہنچتا ہو اسے آپ کے ہاتھوں ختم کرایا جائے۔ یاد رہے کہ بعض لوگوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ آپ خاتم النبیین تو ہیں لیکن خاتم الرسل نہیں ہیں۔ اس لیے یہ بات جان لینا بہت ضروری ہے کہ نبی اور رسول کے درمیان عام اور خاص کی نسبت ہے۔ یعنی ہر رسول یقینا نبی ہوتا ہے۔ لیکن ہر نبی کا رسول ہونا لازمی نہیں۔ تو جب آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو خاتم الرسل ہونا تو اور بھی ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ خاتم اور خاتم دونوں لفظ اہل لغت کے نزدیک بالکل ہم معنی ہیں۔ جن لوگوں نے اس میں ابہام پیدا کیا ہے انھوں نے لغوی خیانت سے کام لیا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس وقت نبی کریم ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلی کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔ رہا مخالفین کا شوروغوغا اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت سے بھی باخبر ہے۔ وہ زید کو بھی جانتا ہے اور زینب کو بھی جانتا ہے۔ اپنے پیغمبر سے بھی واقف ہے۔ اور زید و زینب کے ساتھ ان کے رشتہ کی نوعیت سے بھی باخبر ہے۔ اس لیے اصلاح کا جو عمل بروئے کار آیا ہے اور جس طرح اس رسم کو ختم کیا گیا ہے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا محیط کل علم ہی ہر چیز کی باریکیوں اور حکمتوں کو سمجھ سکتا ہے دوسرے اس کی ساری حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے ملک میں ختم نبوت کے خلاف ایک بہت بڑا فتنہ اٹھایا گیا۔ پارلیمنٹ نے اگرچہ اسے اقلیت قرار دے دیا لیکن ابھی تک وہ فتنہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کے لیے اپنی مساعی میں لگا ہوا ہے۔ اور ہماری حکومت اسے کھلی چھٹی دے چکی ہے۔ علماء نے اس پر نہایت وقیع کام کیا ہے اور اس کے کسی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے ان کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کے تاروپود کو تفہیم القرآن میں پوری طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے اور آخر میں اسے ایک ضمیمہ کے طور پر شامل کردیا ہے۔ اسی طرح مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے بھی اس پر قابل قدر کام کیا ہے اور ختم نبوت پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ معارف القرآن میں اسی کتاب سے چند عنوانات کے تحت چند احادیث جمع کی ہیں، ہم ان کی اہمیت کے پیش نظر انھیں یہاں نقل کررہے ہیں۔ آپ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے منافی نہیں چونکہ قرآن کریم کی معتدد آیات اور احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ قیامت سے پہلے آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پھر دنیا میں تشریف لائیں گے اور دجالِ اعظم کو قتل کریں گے اور اس وقت ہر گمراہی کو ختم کریں گے جس کی تفصیل احقر کے رسالہ ” التصریح بما تواتر فی نزول المسیح “ میں مذکور ہے۔ مرزا قادیانی نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ آسمان میں اٹھایا جانا اور پھر آخر زمانے میں تشریف لانا جو قرآن و سنت کی بیشمار نصوص سے ثابت ہے ان کا انکار کرکے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور استدلال میں یہ پیش کیا کہ اگر حضرت عیسیٰ بن مریم نبی بنی اسرائیل کا پھر دنیا میں آنا تسلیم کیا جائے تو یہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی ہوگا۔ جواب بالکل واضح ہے کہ خاتم النبیین اور آخرالنبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص عہدہ نبوت پر فائز نہ ہوگا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے پہلے جس کو نبوت عطا ہوچکی ہے ان کی نبوت سلب ہوجائے گی یا ان میں سے کوئی اس عالم میں پھر نہیں آسکتا۔ البتہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو بھی آپ کی امت میں اصلاح و تبلیغ کے لیے آئے گا وہ اپنے منصب نبوت پر قائم ہوتے ہوئے اس امت میں اصلاح کی خدمت آنحضرت ﷺ کی تعلیمات ہی کے تابع انجام دے گا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں تصریح ہے۔ والمراد بکونہ (علیہ السلام) خاتمھم انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احدمّن الثقلین بعد تخلیتہ (علیہ السلام) بھافی ھٰذا النشأۃ ولایقدح فی ذلک ما اجمعت علیہ الامۃ واشتھرت فیہ الاخبار ولعلھا بلغت مبلغ اتواتر المعنوی و نطق بہ الکتٰب علیٰ قول و وجب الایمان بہ واکفر منکرہ کالفلاسفۃ من نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اٰخرالزمان لانَّہ کان بنیًّا قبل ان یحلی نبینا ﷺ بالنبوۃ فی ھذہ النشاء ۃ ” یعنی رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے سے یہ مراد ہے کہ وصف نبوت آپ ﷺ کے بعد منقطع ہوگیا، اب کسی کو یہ وصف اور منصب نہیں ملے گا، اس سے اس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جس پر امت کا اجماع ہے اور قرآن اس پر ناطق ہے اور احادیث رسول جو تقریباً درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اس پر شاہد ہیں وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخر زمانے میں نازل ہوں گے کیونکہ ان کو نبوت اس دنیا میں ہمارے نبی ﷺ سے پہلے مل چکی تھی۔ “ نبوت کے مفہوم کی تحریف ظِلّی اور بروزی نبوت کی ایجاد اس مدعی نبوت نے دعویٔ نبوت کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ایک نئی چال یہ چلی کہ نبوت کی ایک نئی قسم ایجاد کی جس کا قرآن و سنت میں کوئی وجود و ثبوت نہیں اور پھر کہا کہ یہ قسم نبوت کی حکم قرآنی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس نے نبوت کے مفہوم میں وہ راستہ اختیار کیا جو ہندوئوں اور دوسری قوموں میں معروف ہے کہ ایک شخص دوسرے جنم میں کسی دوسرے کے روپ میں آسکتا ہے اور پھر یہ کہا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کے مکمل اتباع کی وجہ سے آپ ﷺ کا ہم رنگ ہوگیا ہو اس کا آنا گویا خود آپ ﷺ ہی کا آنا ہے وہ درحقیقت آپ ہی کا ظل اور بروز ہوتا ہے اس لیے اس کے دعوے سے عقیدہ ختم نبوت متأثر نہیں ہوتا۔ مگر اول تو خود یہ نوایجاد نبوت اسلام میں کہاں سے آئی، اس کے علاوہ مسئلہ ختم نبوت چونکہ عقائد اسلامیہ کا ایک بنیادی عقیدہ ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو مختلف عنوانات سے مختلف اوقات میں ایسا واضح کردیا ہے کہ کسی تخریف کرنے والے کی تحریف چل نہیں سکتی، اس جواب کی پوری تفصیل تو احقر کی کتاب ختم نبوت ہی میں دیکھی جاسکتی ہے یہاں چند چیزیں بقدر ضرورت پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم وغیرو میں تمام کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ ( رض) کی یہ روایت اسناد صحیح کے ساتھ آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتًا فاحسنہ واجمل الاموضع لبنۃ من زوایۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھَلاَّ وضعت ھذہ اللبنۃ وانا خاتم النبیین، رواہ احمد والنسائی والترمذی وفی بعض الفاظہ فکنت انا سددت موضع اللبنۃ و ختم بی البنیان۔ ” میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا ہو اور اس کو خوب مضبوط اور مزین کیا ہو مگر اس کے ایک گوشہ میں دیوار کی ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ہو تو لوگ اس کو دیکھنے کے لیے اس میں چلیں پھریں اور تعمیر کو پسند کریں مگر سب یہ کہیں کہ اس مکان بنانے والے نے یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی جس سے تعمیر بالکل مکمل ہوجاتی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (قصرنبوت کی) وہ آخری اینٹ میں ہوں اور بعض الفاظ حدیث میں ہے کہ میں نے اس خالی جگہ کو پر کرکے قصرنبوت کو مکمل کردیا۔ “ اس تمثیل بلیغ کا حاصل یہ ہے کہ نبوت ایک عالی شان محل کی طرح ہے جس کے ارکان انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ آنحضرت ﷺ سے پہلے یہ محل بالکل تیار ہوچکا تھا اور اس میں صرف ایک اینٹ کے سوا کسی اور قسم کی گنجائش تعمیر میں باقی نہیں تھی۔ آنحضرت ﷺ نے اس جگہ کو پر کرکے قصرنبوت کی تکمیل فرما دی اب اس میں نہ کسی نبوت کی گنجائش ہے نہ رسالت کی۔ اگر نبوت یا رسالت کی کچھ اقسام مان لی جائیں تو اب ان میں سے کسی قسم کی گنجائش قصر نبوت میں نہیں ہے۔ صحیح بخاری و مسلم اور مسنداحمد وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ( رض) کی ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی و سیکون خلفاء فیکثرون الحدیث۔ ” بنی اسرائیل کی سیاست اور انتظام خود انبیاء کے ہاتھ میں تھا جب ایک نبی کی وفات ہوجاتی تو دوسرا نبی اس کے قائم مقام ہوجاتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ میرے خلیفہ ہوں گے جو بہت ہوں گے۔ “ اس حدیث نے یہ بھی واضح کردیا کہ آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا تو امت کی ہدایت کا انتظام کیسے ہوگا ؟ اس کے متعلق فرمایا کہ آپ کے بعد امت کی تعلیم و ہدایت کا انتظام آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ہوگا جو رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے مقاصد نبوت کو پورا کریں گے اگر ظلی بروزی کوئی نبوت کی قسم ہوتی یا غیرتشریعی نبوت باقی ہوتی تو ضرور تھا کہ یہاں اس کا ذکر کیا جاتا کہ اگرچہ عام نبوت ختم ہوچکی مگر فلاں قسم کی نبوت باقی ہے جس سے اس عالم کا انتظام ہوگا۔ اس حدیث میں صاف واضح الفاظ میں بتلادیا کہ نبوت کی کوئی قسم آپ کے بعد باقی نہیں اور ہدایت خلق کا کام جو پچھلی امتوں میں انبیاء بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا وہ اس امت میں آپ کے خلفاء سے لیا جائے گا۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ ( رض) کی حدیث مرفوع ہے۔ لَمْ یَبْق مِنَ النُّبُوَّۃِ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتِ ۔ ” یعنی نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات کے۔ “ مسنداحمد وغیرہ میں حضرت صدیقہ عائشہ ( رض) اور ام کرز کعبیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لایبقی بعدی من النبوۃ شیء الا المبشرات قالوا یارسول اللہ وما المبشرات قال الرٔویا الصّالحۃ یراھا المسلم اوتری لہ۔ (طبرانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے کذا فی الکنز) ” میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات کے، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مشرات کیا چیز ہے ؟ فرمایا سچے خواب جو مسلمان خود دیکھے یا اس کے متعلق کوئی دوسرا دیکھے۔ “ اس حدیث نے کسی قدر وضاحت سے بتلا دیا کہ نبوت کی کوئی قسم تشریعی یا غیرتشریعی اور بقول مرزا قادیانی ظلی یا بروزی آنحضرت ﷺ کے بعد باقی نہیں، صرف مبشرات یعنی سچے خواب لوگوں کو آئیں گے جن سے کچھ معلومات ہوجائیں گی۔ اور مسنداحمد اور ترمذی میں حضرت انس بن مالک ( رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلارسول بعدی ولا نبی، رواہ الترمذی و وقال ھذا حدیث صحیح۔ ” بیشک رسالت اور نبوت میرے بعد منقطع ہوچکی ہے، میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی۔ “ اس حدیث نے واضح کردیا کہ غیرتشریعی نبوت بھی آپ کے بعد باقی نہیں اور ظلی بروزی تو نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں نہ اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز معروف ہے۔ اس جگہ مسئلہ ختم نبوت کی احادیث جمع کرنا مقصود نہیں وہ تو دو سو سے زیادہ رسالہ ختم نبوت میں جمع کردی گئی ہیں صرف چند احادیث سے یہ بتلانا مقصود تھا کہ مرزائی قادیانی نے جو بقائِ نبوت کے لیے ظلی اور بروزی کا عنوان ایجاد کیا ہے اول تو اسلام میں اس کی کوئی اصل و بنیاد نہیں اور بالفرض ہوتی بھی تو ان احادیث مذکورہ نے واضح طور پر یہ بتلا دیا کہ آپ کے بعد نبوت کی کوئی قسم کسی طرح کی باقی نہیں ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے سب طبقات کا اجماع اس عقیدہ پر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی یا رسول نہیں ہوسکتا جو دعویٰ کرے کہ وہ کاذب منکر قرآن اور کافر ہے اور صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا جس کی رو سے مسیلمہ کذاب مدعی نبوت سے خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر ( رض) کے عہد میں جہاد کرکے اس کو اور اس کے ماننے والوں کو قتل کیا گیا۔ ائمہ سلف اور علماء امت کے اقوال و تصریحات بھی اس معاملہ میں رسالہ ” ختم نبوت “ کے تیسرے حصہ میں بڑی تفصیل سے لکھ دیے گئے ہیں اس جگہ چند کلمات نقل کیے جاتے ہیں۔ ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے، اخبر اللہ تعالیٰ فی کتابہ و رسول اللہ ﷺ فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لانبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھوکذاب افاک دجال ضال مضل ولوحرّق وشعبذواتی بانواع السحر والطلاسم والنیر نجیات فکلھا محال وضلال عند اولی الالباب کما اجری اللہ سبحانہ علی یدالاسود العنسی بالیمن ومسیلمۃ الکذاب بالیمامۃ من الاحوال الفاسدۃ والاقوال الباردۃ ماعلم کل ذی لب و فھم وحجی انھما کاذبان ضالان لعنھما اللہ تعالیٰ وکذلک کلّ مُدع لذٰلک الی یوم القیمۃ حتی یختموا بالمسیح الدجال، (ابنِ کثیر) ” اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ ﷺ نے احادیث متواترہ میں خبر دی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ آپ کے بعد جو شخص اس مقام نبوت کا دعویٰ کرے وہ کذاب، مفتری، دجال، گمراہ، گمراہ کرنے والا ہے۔ اگرچہ وہ کتنی ہی شعبدہ بازی کرے اور قسم قسم کے جادو اور طلسم اور نیرنگیاں دکھلائے کہ سب کے سب محال اور گمراہی ہیں عقل والوں کے نزدیک جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسود عنسی (مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمن میں اور مسیلمہ کذاب (مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمامہ میں اس طرح کے حالاتِ فاسدہ اور بےہودہ اقوال ظاہر کرائے جن کو دیکھ کر سنکر ہر عقل و فہم والے نے سمجھ لیا کہ یہ دونوں کاذب اور گمراہ ہیں اللہ ان پر لعنت فرمائے۔ اسی طرح جو شخص بھی قیامت تک نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و کافر ہے یہاں تک کہ مدعیانِ نبوت کا یہ سلسلہ مسیح دجال پر ختم ہوگا۔ “ امام غزائی ( رض) نے اپنی کتاب ” الاقتصاد فی الاعتقاد “ میں آیت مذکورہ کی تفسیر اور عقیدہ ختم نبوت کے متعلق یہ الفاظ لکھے ہیں۔ ولیس فیہ تاویل ولا تخصیص ومن اَوَّلَـہٗ بتخصیص فکلامہ من الھذیان لایمنع الحکم بتکفیرہ لانّہ مکذّبٌ لھذا النص الذی اجمعت الامۃ علیٰ انہ غیرمأوّل ولامخصوص ” اس آیت میں کسی تاویل یا تخصیص کی گنجائش نہیں اور جو شخص تاویل کرکے اس میں کوئی تخصیص نکالے اس کا کلام ہذیان کی قسم ہے اور یہ تاویل اس کو کافر کہنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ وہ اس آیت کی تکذیب کر رہا ہے جس کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ وہ ماول یا مخصوص بالکل نہیں۔ “ اور قاضی عیاض ( رض) نے اپنی کتاب شفا میں نبی کریم ﷺ کے بعد دعوی نبوت کرنے والے کو کافر اور کذاب اور رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرنے والا اور آیت مذکورہ کا منکر کہہ کہ یہ الفاظ لکھے ہیں۔ واجمعت الامۃ علی حمل ھذا الکلام علیٰ ظاہرہ وان مفھومہ المرادبہ دون تاویل ولا تخصیص فلاشک فی کفر ھؤلاء الطوائف کلھا قطعاً اجماعاً وَّسمعاً ” امت نے اجماع کیا ہے کہ اس کلام کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے اور اس پر کہ اس آیت کا نفس مفہوم ہی مراد ہے بغیر کسی تاویل یا تخصیص کے اس لیے ان تمام فرقوں کے کفر میں کوئی شک نہیں، (جو کسی مدعی نبوت کی پیروی کریں) بلکہ ان کا فکر قطعی طور پر اجماع امت اور نقل یعنی کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ “ رسالہ ختم نبوت کے تیسرے حصے میں ائمہ دین اور ہر طبقے کے اکابر علماء کے بہت سے اقوال جمع کردیے گئے ہیں اور جو یہاں نقل کیے گئے ہیں ایک مسلمان کے لیے وہ بھی کافی ہیں۔ وللہ اعلم۔
Top