Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
محمد (رسول اللہ ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں (سلسلہ نبوت ان پر ختم ہوگیا ہے) اور اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے
محمد رسول اللہ ﷺ تم مردوں سے کسی کے باپ نہیں ہیں 40 ۔ زید کے طلاق دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم ﷺ نے سیدہ زینب سے نکاح کرلیا ، بس یہ نکاح ہونا تھا کہ آپ ﷺ کے خلاف پروپیگنڈہ کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا اور رہتی کسر اس نے نکال دی گویا ایک جنگ احزاب تو وہ تھی جو خندق کے نام سے معروف ہوئی اور اب دوسری جنگ یہ شروع ہوگئی جس میں اس ملک کی ساری جاعتیں شریک ہوگئیں۔ مشرکین ، منافقین او یہود سب کے سب جو آپ ﷺ کی کامیابیوں پر جلے پڑے تھے احزاب اور احزاب کے بعد قریظ کے واقعات کا قلق ان کو بہت تھا اور وہ جلے بھنے بیٹھے تھے زینب ؓ کے نکاح کے ساتھ ہی ان سب لوگوں نے مل کر ایک پروپیگنڈا مہم چلا دی کہ دیکھو محمد ﷺ آج تک تو کہتا رہا کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے لیکن اب کیا ہوا کہ بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرلیا اس طرح انہوں نے گویا اس نکاح کے معاملے کو اپنے لئے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ اب ہم محمد ﷺ کی اس اخلاقی برتری کو ختم کرسکیں گے جوان کی طاقت اور کامیابیوں کا اصل راز ہے چناچہ یہ افسانے تراشے گئے کہ محمد ﷺ بہو کو دیکھ کر عاشق ہوگئے تھے لیکن بیٹے کو اس تعلق کا علم ہوگیا تو اس نے بیوی کو طلاق دے دی اور باپ نے اس کے بعد اپنی بہو سے بیاہ رچالیا حالانکہ یہ بات صریحاً لغو تھی جو محض ان کے کٹے پٹے جلے بھنے لوگوں نے گھڑی تھی۔ زینب کون تھیں ؟ سب کو معلوم ہے کہ حقیقی پھوپھی زاد تھیں اس لئے بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر آپ ﷺ کے سامنے گزری تھی کسی وقت ان کو دیکھ کر ریجھ جانے کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا تھا خصوصاً جب آپ ﷺ نے خود اصرار کرکے حضرت زید ؓ سے ان کا نکاح کرایا تھا جب کہ زینب ؓ کا پور اخاندان بھی اس پر خوش نہ تھا اور خود سیدہ زینب ؓ بھی اس رشتہ پر کچھ خوش نہ تھیں اگرچہ یہ سب باتیں قبل از نکاح کی ہیں تاہم ان ساری باتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو کوئی عقل وفکر والا انسان ایسا الزام نہیں لگا سکتا جو ان بدباطنوں نے لگایا پھر افسوس کہ ان بدباطنوں نے تو کیا جو کچھ کیا اور محض اس لئے کیا کہ ان کی مخالفت موجود تھی اور بعد میں آنے والوں نے بھی اس مخالفت کی بیس پر اس کو ہوا دی قابل غور بات تو یہ ہے کہ ان اپنوں کو کیا ہوا جنہوں نے اس طرح کا سارا گند اٹھا کر قرآن کریم کی تفسیر کے طور پر قرآن کے ساتھ ملحق کردیا اور جب انہوں نے اپنے نبی ورسول محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق اس طرح کی ہرزہ سرائی قبول کرکے اس کو اپنی اپنی تفسیر کی زینت بنایا تو کیا وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء کرام کے بارے میں وہ سب کچھ نہ کرسکتے تھے جو انہوں نے بیان کیا اور اگر اس واقع کی کوئی حقیقت نہ تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کو قبول کیا اور اپنی تفسیروں میں اس کو جگہ دی تو کیا وہ دوسرے انبیاء کرام کے متعلق وہ کچھ نہیں لکھ سکتے تھے جو انہوں نے لکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ کی اجتماعی سازش کے نتیجے میں تحریر کیا گیا اور پھر جب ایک بار تحریر ہوگیا تو بعد میں آنے والوں کے پاس وہ بطور دلیل موجود تھا اور پھر اس طرح مکھی پر مکھی ماری گئی اور ہوتے ہوتے یہ سب بےاصل تھے تفاسیر میں داخل ہوگئے اور آج اگر ہم ان کا تجزیہ کرکے ان کو من گھڑت داستان قرار دیتے ہیں تو لوگوں کو ان مفسرین کا مقام ، ان کا علم اور رعب وداب دیکھ کر خیال گزرتا ہے کہ اتنے اتنے بڑے لوگ کیسے غلط ہوسکتے ہیں یہ نہ ہو یہ نئی تفسیر ہی غلط ہو کیونکہ آج تک جو بات تحری ہوتی چلی آئی ہے وہ آج اس ” جاہل “ اور ” ناخواندہ “ کی تحریر کو دیکھ کر کیسے چھوڑی جاسکتی ہے ؟ ہم ان سے دست بستہ عرض پیش کریں گے کہ آپ کی یہ سوچ بلا شبہ صحیح نہیں اس لئے کہ آپ نے گزشتہ مفسرین کا مقابلہ ہم جیسے لوگوں سے کیوں کردیا آپ لوگوں کو اگر موازنہ کرنا ہی تھا تو جس کی یہ بات ہے اس کو مدنظر رکھ کر کرتے آپ کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے ؟ وہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی ذات بابرکات ہے جن کے متعلق یہ ہرزہ سرائی کی گئی۔ ہم گزشتہ مفسرین کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اغیار کی یلغار کا ذکر کرتے ہوئے ان باتوں کو تحریر کردیا ہوگا ان کی نیت درت ہوگی لیکن بہرحال ان باتوں کا جس طرح ان کو رد کرنا چاہیے تھا وہ نہ کرسکے اس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن ہم ان کی باتوں کو کسی حال میں قبول نہیں کرسکتے خواہ وہ کہاں سے ہوں اور کون کہہ رہا ہو ؟ اس معاملہ میں اگر ہماری مخالفت ہوتی ہے تو ایک بار نہیں سو بار ہو ہاں ! ضرور ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم ایسے مخالفین کو معذور سمجھ کر خاموش ہوجائیں اور وہ ہم ہو ہی چکے ہیں بلکہ ان کے لئے دعاگو ہیں کہ اللہ انہیں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ نبوت و رسالت کو ختم کردینے کے لئے ضروری تھا کہ آپ ﷺ کی نرینہ اولاد ہی نہ ہو نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ سنت اللہ قائم کردی گئی کہ کسی ایک نبی ورسول کی ذریت میں وہ سلسلہ رکھ دیا جس کو ملکہ نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس کی وضاحت کردی ہے اور ہم عروۃ الوثقی ، جلد سوم کی سورة الانعام کی آیت 84 میں بیان کر آئے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کی نسل سے جب نبوت خاص کردی تو ایک سلسلہ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) سے چل کر عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوا اور دوسرا سلسلہ سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) سے چلنا طے پایا تھا جس میں ایک ہی نبوت و رسالت رکھی گئی تھی جس کی خوشخبری ہر آنے والے نبی ورسول نے دی اور وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی تھے اور اس جگہ نبوت و رسالت کے عہدے کو لاکر ختم کردینا قانون الٰہی میں طے ہوچکا تھا کہ آپ ہر سلسلہ نبوت و رسالت اختتام پذیر ہوجائے گا لہٰذا اس اعلان کے مطابق محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم کردی گئی اور اب کوئی نیا یا پرانا رسول نہیں آئے گا جس کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ محمد ﷺ کی کوئی نرینہ اولاد ہی نہ ہو تاکہ یہ بحث ہی ختم ہوجائے کہ کوئی نبی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ گزشتہ نبوتوں کے سارے سلسلے ختم کردیئے گئے صرف ایک ہی سلسلہ یعنی اسماعیلی سلسلہ بند نہیں ہوا تھا بلکہ اس سلسلہ میں نبی ورسول آنے کی یقینی خبر موجود تھی لہٰذا نبی کریم ﷺ اسی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور جب اس سلسلہ کو بھی آگے سے بند کردیا گیا تو اب کسی نبی ورسول کے آنے کی بحث ہی ختم ہوگئی اس لئے زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے اب ضروری ٹھہرا ہے کہ آپ ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہوسکتے لہٰذا ضروری ہے کہ اگر آپ ﷺ کی کوئی اولاد نرینہ پیدا ہو بھی جائے تو وہ بلوغت سے قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوجائے اور بعد میں ارشاد فرمادیا کہ یہ بات کسی ایرے غیرے نے نہیں کہی بلکہ یہ اس قادر مطلق کی طرف سے اعلان ہے جو ہر ایک چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز بھی باہر نہیں ہے۔ ہم امام ابوحنیفہ (رح) کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کردے اور کوئی دوسرا اس سے اس کی نبوت پر صرف دلیل طلب کرے تو دلیل طلب کرنے والا بھی کافر ہوجائے گا گویا دعویٰ نبوت کرنے والا تو دعویٰ کرتے ہی کافر ہوگیا خواہ وہ کون ہو اور کس خاندان سے تعلق رکھنے والا ہو لیکن اس کے دعویٰ پر کوئی دلیل طلب کرلے تو وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ دلیل طلب کرنا شک وشبہ کے باعث ہوتا ہے اور آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں تو شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے لہٰذا جو شخص اس سلسلہ میں کوئی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ مسلمان ہی نہیں رہے گا اور جب وہ مسلمان ہی نہ رہا تو اس کی بحث کا کوئی فائدہ ۔ جس طرح کوئی شخص اللہ کے ایک ہونے میں کسی طرح کا شک کرے تو ہم کو دیکھنا ہوگا کہ یہ شک کرنے والا کون ہے ؟ اگر وہ مسلمان گروہ سے تعلق رکھنے والا ہے تو اس سے اس سلسلہ میں ہرگز بات نہیں وہ یہ شک کرکے مسلمان نہیں رہا۔ ہاں ! یہ شک کرنے والا کوئی کافر ہے تو اس کی تسلی کے لئے دلائل دیں گے اور اس کو باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیوں ذات واحد ہے لیکن ایک مسلم کہلوانے والا تو اللہ کی وحدانیت میں شک کرکے مسلمان ہی نہیں رہے گا اس لئے اب اس سے مسلمان سمجھ کر بات نہیں کی جائے گی اس لئے ختم نبوت کے لئے دلائل تو پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن کسی مدعی نبوت سے نبوت کی دلیل طلب نہیں کی جائے گی بلکہ اس کو اس دعویٰ کے ساتھ ہی اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ اب غور کرو کہ مرزا جی نے دعویٰ نبوت کیا یا نہیں ؟ اگر اس نے دعویٰ نبوت کیا تو وہ اس دعویٰ کرنے کے ساتھ ہی کافر ہوگیا اب جو بھی اس سے دلیل طلب کرے گا وہ خود کافر ٹھہرے گا لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سے کسی قسم کی دلیل طلب نہ کریں بلکہ اس کو کافر سمجھیں اور اس کو مسلمان سمجھ کر کبھی اس سے بات نہ کریں اور یہی حال اس کے نبی ماننے والوں کا ہے کہ ان کو مسلمان سمجھ کر ان سے بات نہیں کی جاسکتی اور اسی طرح یہ بھی کہ ان لوگوں کو ” احمدی “ کہلوانے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی کسی کو ” احمدی “ کہہ کر غیر مسلم کہا جاسکتا ہے تف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے قادیانیوں کو ” احمدی “ مان لیا اور پھر ” احمدی “ کہہ کر ان کو غیر مسلم کہا۔ اس کی مزید وضاحت کا اصل مقام سورة الصف ہے اور ہم انشاء اللہ العزیز اسی مقام پر مزید بات کریں گے۔ بہرحال کوئی تسلیم کرے نہ کرے ہم اس قانون کو صحیح نہیں سمجھتے جس میں قادیانیوں کو ” احمدی “ تسلیم کیا گیا۔ ہم زور دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو وہ دعویٰ کرتے ہی مسلمان نہیں رہا تھا اور پھر جن لوگوں نے اس کی نبوت کو مان لیا تھا وہ چاہے اپنا نام کچھ رکھتے لیکن ان کو ” احمدی “ کہلانے کا کوئی حق نہیں تھا۔ جب انہوں نے اپنا نام ” احمدی “ رکھا تھا تو مسلمانوں کا فرض تھا کہ وہ ان کو ” احمدی “ تسلیم ہی نہ کرتے اگر معاملہ عدالت میں گیا تھا تو مسلمانوں کا موقف ہی یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان لوگوں کو ” احمدی “ کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور کسی غیر مسلم کو ” احمدی “ نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن کریم کی رو سے جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اسی طرح احمد رسول اللہ ﷺ ہیں گویا ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں جو شخصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت و رسالت دی گئی ہے اور جس کے متعلق قرآن کریمنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان کیا ہے اور جس کا معنی ومفہوم متعین کرتے ہوئے خود محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انا خاتم النبیین لا نبی بعید ” میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا “۔ (بخاری) ختم نبوت کا عقیدہ بنیادی عقائد میں سے ایک ہے جس کا انکار کفر ہے بلا شبہ ختم نبوت کا عقیدہ ان بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے جس کے منہدم ہونے سے اسلام کی پوری عمارت دھڑام سے گر جاتی اور اس کے گرنے کے ساتھ ہی باقی بنیادیں بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہیں لیکن افسوس کہ جس طرح اسلام کی ساری بنیادوں ہی میں کچھ نہ کچھ ہوچکا ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ اسی طرح اس بنیاد میں بھی بہت کچھ ہوچکا ہے لیکن تفصیل اس کی ذرا لمبی ہے اس لئے اس جگہ اختصار سے کام لیا جارہا ہے اور اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نیایا پرانا نبی نہیں آئے گا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ تیرہ صدیوں میں جس نے بھی اور جہاں بھی کسی نے نبی بننے کا دعویٰ کیا امت مسلمہ نے اپنے سارے اختلافات کے باوجود اس کو مرتد قرار دیا اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کرکے اس کی جھوٹی عظمت کو خاک میں ملادیا گیا۔ مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو صدیق اکبر ؓ نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کے خلاف لشکر کشی کرکے اس جھوٹے نبی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس جہاد میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بھی شہید ہوئے جن میں سینکڑوں حفاظ قرآن اور بہت بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام تھے لیکن سیدنا صدیق اکبر ؓ نے اتنی بڑی قربانی دے کر بھی اس فتنے کو کچلنا ضروری سمجھا اور انی رسول اللہ الیکم جمیعا کو جان کی بازی لگا کر ثابت کردیا کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے بعد کسی انسان کو اس کا حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی رسالت ونبوت کا اعلان کرے حالانکہ مسیلمہ کذاب نبی اعظم وآخر ﷺ کو رسول مانتا تھا اور اسکے عقائد میں آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا بھی ضروری قرار دیا گیا تھا ، لوگوں نے آپ ﷺ کی ختم نبوت کو لغت سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایک ثابت شدہ چیز پر دلائل کی جتنی بھر مار بھی کی جائے کی جاسکتی ہے لیکن ہم ایک اور نگاہ سے اس کو دیکھتے ہیں۔ ختم نبوت کی اس پیش گوئی کو مشیت ایزدی نے پوری دنیا میں پھیلا دیا یہ امر معلوم کہ آپ ﷺ نے بطور پیش گوئی اس کا اعلان فرمایا اور آپ ﷺ کے اس اعلان میں ایک عجیب طاقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھردی گئی۔ دنیا کے ایک ایک ملک کا حال دیکھتے جائو نبی اعظم وآخر ﷺ سے پہلے کون متواتر سروش آسمانی کی آوازئیں بیسیوں پاک سرشت بزرگوں کو سنائی دیتی رہیں۔ ہندوستانیوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں کروڑوں سال تک لاکھوں مہارش ایسے ہوئے جن پر آکاش بانی کا پر کاش ہوتا رہا۔ بنی اسرائیل کے حالات پڑھو جہاں ایک ایک وقت میں دو دو چار چار نبی موجود پائے گئے۔ مصریوں اور چینیوں نے بھی سینکڑوں سال تک اپنے اندر نبوت و رسالت ہونے کے عادی کو بلند کیا لیکن جب سے قرآ کریم میں آیت زیر نظر کا اعلان ہوا ہے اور ختم نبوت کا فرمان سنا دیا گیا ہے اس وقت سے ان سب مذاہب اور ادیان نے بھی اپنے اپنے دروازوں پر قفل ڈال دیئے ہیں۔ مجوسی اب کیوں کسی شخص کو جاماشپ وزرتشت کے اور نگ پر نہیں بٹھلاتے ، آریہ ورت اب کیوں آکاش بانی کا ایک حرف بھی نہیں سنتا۔ بنی اسرائیل کیوں اپنی قوم اور اپنے ملک میں کسی کا نبی ہونا تسلیم نہیں کرتے۔ کیا یہ سب قدرت خداوندی ہی کا روشن کارنامہ نہیں جس نے نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین بتانے کے بعد تمام دنیا کے جملہ مذاہب کے دماغوں اور طبیعتوں سے بھی یہ بات نکال دی ہے کہ خود ان کے مذاہب کے اندر بھی کسی کو پیغمبر ، نبی ورسول اور اوتار کہا جائے۔ دنیا بھر کا یہ عملی فیصلہ یا طبعی میلان بلکہ فطری وجدان ظاہر کرتا ہے کہ قدرت الٰہی نے اسی خصوصیت کو وجود اقدس نبویہ ﷺ سے خاص رکھتے ہوئے کیسی زبردست حفاظت فرمائی ہے کہ کوئی غیر مسلم بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ذاتی توصیف کے لئے ایسا فرمادیا ہے۔ بلا شبہ دعویٰ کرنا آسان ہے مگر زمان مستقبل پر حکومت کرنا دشوار ہے۔ یہاں تو چودہ صدیوں کا زمانہ اور مختلف ومتعدد مذاہب کا متفقہ رویہ اس کی تائید میں موجود ہے جس شے کی تائید میں خود زمانہ ہو وہاں تصنیف کا کیا دخل رہ جاتا ہے۔ اگر نبی کریم ﷺ کو اپنا ذاتی فحر بھی قائم کرنا مقصود ہوتا تو آپ ﷺ ایسا کرسکتے تھے کہ اپنے متبعین کو نبوت کے منصب سے ممتاز بناتے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑھ کر اپنے اتباع کرنے والے انبیاء کی شان اور تعداد کا اظہار کرتے ۔ ہاں ! بعض مسلمان صوفیہ کی نسبت یہ بات زبان زد عوام ہے کہ انہوں نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا حالانکہ ان روایات کی صحت بالکل مشکوک ومخدوش ہے لیکن اگر ثابت بھی ہوجائے کہ کسی شخص نے فی الواقع انا الحق بھی کہا یا سبحانی ما اعظم شانی بھی کہا تب بھی یہ نتیجہ تو صاف نکلتا ہے کہ خدا بننا تو ان کو سہل نظر آیا مگر نبی ورسول کہلوانے کی جرات وہ بھی نہ کرسکے ایسے ہی لوگوں میں یہ مصرعہ بہت شہرت یافتہ ہے کہ ع با خدا دیوانہ باش وبا محمد ﷺ ہوشیار خاتم النبیین کے عنوان میں نبی کریم ﷺ کی فرمودہ تشریح ختم نبوت کے نظریہ کی حفاظت الٰہی کے بارے میں آپ نے پڑھا ، اب ذیل میں زیر نظر آیت کے متعلق جو آپ ﷺ کے ارشادات ہیں ان کے متعلق بھی ذراوضاحت سن لیں اگرچہ اس جگہ مکمل وضاحت تو نہیں پیش کی جاسکتی تاہم مشتے از خردارے خود نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی ملاحظہ کرلیں کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا : 1) عن ابی ہریرہ ؓ قال رسول اللہ ﷺ مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ فاجملہ الاموضع لبنۃ من زوایۃ فجعل الناس یطوفون بہ و یعجبون لہ ویقولون ھل لا وضعت ھذہ اللبنۃ فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین۔ (بخاری کتاب المناقب ، باب خاتم النبیین) ” ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل عمارت بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی تھی لوگ اس عمارت کے ارد گرد پھرتے اور اس عمارت کی خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں “۔ 2) عن جبیربن مطعم قال سمعت النبی ﷺ یقول ان ابی اسماء انا محمد وانا احمد وانا الماحی الذی یمحوا اللہ فی الکڑر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی وانا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ” جبر بن مطعم ؓ سے روایت ہے ، اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ میرے بہت سے نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ نے میرے ذریعہ سے کفر کو مٹایا ہے ، میں حاشر ہوں کہ لوگ قیامت کو میرے بعد اٹھائے جائیں گے۔ میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا “۔ 3) عن ابی ہریرہ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال فضلت علی الانبیاء یمست اعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجدا و طھورا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبییون (مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ) ” ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں انبیاء کرام پر فضیلت دی گئی۔ 1 ۔ مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا۔ 2 ۔ رعب کے ذریعے میری مدد فرمائی گئی۔ 3 ۔ میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیا گیا۔ 4 ۔ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا گیا اور اسکو پاک کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ 5 ۔ مجھے تمام مخلوق کے لئے رسول بنایا گیا اور 6 ۔ میری ذات پر انبیاء کرام کا سلسلہ ختم کردیا گیا “۔ 4) عن فی امامۃ ؓ قال النبی ﷺ فی خطبۃ الوداع ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعد کم (ابنجریر ، ابن عساکر) ” ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا اے لوگو ! یادرکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمہارے بعد کوئی اور امت نہیں ہے “۔ 5) عن انس ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انفطعت ولا رسول بعد ولا نبی (زرقانی ج 5 ص 267) ” انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی اور میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا “۔ 6) عن ثوبان ؓ قال قال النبی ﷺ سیکون فی امتی ثلثون کذابا کلھم بزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (راوہ مسلم) ” ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس شخص ایسے ہوں گے جو کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا گمان یہ ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے “۔ صرف یہی احادیث نہیں علاوہ ازیں بیسیوں احادیث بیان کی گئی ہیں اگر ان کو جمع کرنا شروع کردیں گے تو ایک کتاب تیار ہوجائے گی ہمارا مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ امت مسلمہ میں سے محض ان لوگوں نے جنعہوں نے تقیہ کرکے اسلام کو قبول کرلیا حقیقت میں وہ یہودی الاصل تھے اور یہودیت کے پھیلانے ہی کے لئے وہ اسلام میں گھس آئے تھے انہوں نے بار بار اس کی کوشش کی اور کسی نہ کسی کو اس دعویٰ کے ساتھ کھڑا کردیا لیکن ہر مدعی کو دعویٰ کے ساتھ ہی ختم کردیا گیا اگر کسی نے چند روز مہلت پائی تو وہ چھپ چھپا کر پائی لیکن تعجب تو یہ ہے کہ مشیت الٰہی نے اپنی قدرت قاہرہ سے جملہ مذاہب کی اس طرح زبان بندی فرمادی کہ آج تک کہیں سے اس طرح کی اطلاع نہ آئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ختم نبوت وہ خصوصیت خاصہ ہے جو بالکل ذات اقدس نبی اعظم وآخر ﷺ کو حاصل ہے جیسا کہ ہم نے اوپر ہی اس کا ذکر کردیا ہے۔ ختم نبوت کے اس نظریہ کے باوجود اسلام کے اندر دعویٰ نبوت کیوں ؟ بلا شبہ یہ بات قابل غور ہے کہ جب اسلام کے اس نظریہ کی حفاظت مشیت ایزدی نے اس قدر کی کہ آج تک باہر سے کسی کو اس کی جرات نہ ہوئی کہ وہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے لیکن اسلام کے اندر بہرحال لوگوں نے یہ ہمت تو کی اگرچہ وہ ناکام ہوتے رہے اور سوائے ایک فتنہ کے اتنی دیر کوئی نہ چل سکا لیکن یہ موضوع اتنا حساس ہے کہ اس کی وضاحت بہت سے نئے دروازے کھول دے گی ہم اس جگہ تفصیل میں گئے بغیر اس کی اصل وجہ کی طرف اشارہ کریں گے ، آنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تناظر میں اس کی وضاحت تلاش کریں اور حالات زمانہ سے ان کاموازنہ کرتے جائیں انشاء اللہ وہ اس کی حقیقت کو پالیں گے کیونکہ حالات ومطابقت خود ان کی رہنمائی کرے گی جیسے بادل بن رہے ہوں تو بارش کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی جب موسم کی حالت بھی اس کا تقاضا کررہی ہو تو بارش کی اطلاع دینے والے کے لئے بہت حد تک آسانی ہوجاتی ہے اور جو وہ کہتا ہے وہ اکثر سچ ہی ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال زیر نظر بات کو سمجھنے کے لئے ذرا ہم کو نبی اعظم وآخر ﷺ کی آمد سے پہلے کے حالات کی طرف لوٹنا ہوگا کہ وہ اس معاملہ میں کیا تھے ؟ ازیں بعد آپ ﷺ کی آمد اور آپ ﷺ کے ختم نبوت کے اعلان کے بعد ان لوگوں کی تشریحات جو دوسرے مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئے اس کو نگاہ میں رکھنا ہوگا تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔ اسلام کی آمد کے وقت دنیا میں سب سے بڑے مذہب صرف دو تھے یہودیت اور عیسائیت اور یہ بھی ظاہر ہے کہ عیسائیت سے پہلے صرف یہودیت ہی یہودیت تھی ، عیسائیت تو زیادہ تر یہودیت ہی سے وجود میں آئی۔ دائود وسلم ان (علیہما السلام) کا زمانہ تو وہ زمانہ تھا کہ یہودیت ہی دنیا میں وہ مومن ومسلم قوم تھی جو دوسری اقوام کے مقابلہ میں دنیا میں ایک زندہ قوم کے طور پر موجود تھی لیکن سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل پے درپے تنزلی کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کو غلام بنا کر زمین میں تتر بتر کردیا توانبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی کہ خدا کی طرف سے ایک ” مسیح “ آنے والا ہے جو تم کو اس ذلت سے نجات دلائے گا اور یہ بات ایک سے زیادہ نبیوں نے اپنے اپنے دور میں دہرائی اور ان پیشگوئیوں کی بنیاد پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو بادشاہ ہو ، لڑکر ملک فتح کرے اور بنی اسرائیل کو جو اس وقت دنیا میں ہجرت پر ہجرت کرکے کہاں سے کہاں تتر بتر ہوچکے تھے سب کو فلسطین میں اکٹھا کرے تاکہ ان کی ایک زبردست سلطنت قائم ہوجائے۔ انہی توقعات کے بل بوتے پر وہ زندہ رہ رہے تھے کہ وہ مسیح پیدا ہوگا لیکن ان کی توقعات کے بالکل خلاف جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیح پیدا ہوئے تو حکومت اس وجہ سے خلاف تھی کہ یہودیوں کی پیش گوئیوں کے مطابق وہ دوسروں کی حکومت کو ختم کرنے والا ہوگا اور خود یہودی اس لئے اس کے خلاف ہوگئے کہ ان کی توقعات پر وہ پورا نہ اترا اور دعویٰ اس کافی الواقع وہی تھا جو ان کی مذہبی پیش گوئیوں میں کیا گیا تھا لیکن جب یہودیوں نے دیکھا کہ اس کے ساتھ تو کوئی لائو لشکر ہی نہیں ہے بلکہ اس نے تو ہماری توقعات پر پانی پھیر دیا ہے تو یہودی کی اکثریت نے اس کی مسیحیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور وہ اس کے ہلاک کرنے کے درپے ہوگئے اور اسی طرح عیسائیوں کے لئے تو وہ مسیح پیدا ہوگیا تھا لہٰذا یہودیوں نے جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں زور صرف کیا اس کے مقابلہ میں عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت میں اتنی ہی فراط شروع کردی اور ان کو کچھ سے کچھ بنادیا حتیٰ کہ نبوت کے عہدہ سے اٹھا کر انہوں نے ان کو سیدھا اللہ میاں بنا دیا بہرحال اس مخالفت کا نتیجہ وہی نکلا جو اس طرح کی مخالفت سے نکلا کرتا ہے ، نتیجہ کیا نکلا ؟ یہی کہ عیسائیوں کا مسیح تو آچکا تھا لیکن یہودی اس وقت سے آج تک اس مسیح موعود کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں ، اسلام آیا تو اس نے عیسائیوں کے اس نظریہ کی تصدیق کردی کہ وہ مسیح آگئے اور بلا شبہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور اس کے رسول ہیں یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں نے اسلام کو بہت کم نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور عیسائی دین اسلام کے آنے کے بعد اسلام میں زیادہ داخل ہوئے تاہم یہودیوں میں سے کچھ نہ کچھ یہودی بہرحال اسلام میں داخل ہوئے اور دونوں گروہ اپنے اپنے عقیدے بھی ساتھ لائے۔ اسلام چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کو تسلیم کرچکا تھا اس لئے ان دونوں کو اسلام میں داخل ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح کی آمد کے بعد اس کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر اپنے وقت پر آسمان سے نازل ہونا طے پا گیا اور ان دونوں گروہ کے نظریوں سے ایک نیا نظریہ قائم ہوگیا۔ اس وقت جب نبی کریم ﷺ ابھی دنیا میں موجود تھے اور عیسائی اسلام میں داخل ہوگئے تو ان کی تفہیم کے لئے آپ ﷺ نے اس طرح ارثاد فرمایا کہ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) یا کسی وقت بھی دنیا میں واپس لے آئیں اور تمہاری عیسائیوں کی حالت کو دیکھیں تو تمہاری صلیب کو توڑ ڈالیں اور خنزیر جس کا تم نے کھانا حلال کرلیا ہے اس کو ہلاک کردیں یعنی حرام کریں اور اس طرح اس جنگ کا خاتمہ کردیں جو تم اس وقت لڑ رہے ہو اور یہ بات عین فطرت کے مطابق تھی تاکہ ان کی تفہیم کرائی جائے جیسے آج کسی کو کہا جائے کہ اگر رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف لے آئیں تو تمہاری حالت کو دیکھ کر تمہارے ان سارے ساتویں ، چالیسویں اور اسی طرح کے سارے بکھیڑوں کو ختم کرکے رکھ دیں یا یہ کہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر وہ ان کی اکثریت کو اپنا امتی ماننے سے انکار کردیں تو یہ کہنا سو صد صحیح ہوگا۔ یہی بات اس وقت آپ ﷺ نے نو مسلم عیسائیوں کو مخاطب کرکے فرمائی۔ آپ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آہستہ آہستہ وہ نظریہ اس صورت میں محفوظ کرلیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تولد ہوئے لیکن ایک عرصہ کے بعد زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے اور اب دوبارہ ان کا نزول ہوگا اس طرح آنے والے پہلے آنے والے مسیح کی طرح اس کا مثیل ، بروز اور اسی طرح کے دوسرے بکھیڑے بیان کرکے یہودیوں کے اس نظریہ انتظار مسیح میں شریک ہوگئے۔ آج بھی یہودی لٹریچر کو اٹھا کر دیکھ لو کہ وہ اس آنے والے سہانے خوابوں سے بھرا پڑا ہے۔ تلمود اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی وسیاسی لیڈر ہوگا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ جسے یہودی اپنی میراث کا علاقہ سمجھتے ہیں انہیں واپسی دلائے گا اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لاکر اس ملک میں پھر سے جمع کردے گا۔ مسلمانوں میں بھی چونکہ مسیح کی آمد کا نظریہ موجود تھا اس میں جن لوگوں نے دیکھا کہ جب مسیح زندہ نہیں اٹھا لئے گئے بلکہ وہ تو وفات پاگئے تو انہوں نے اس طرح تطبیق دے لی کہ وہ ہم ہی میں پیدا ہو کر مثیل مسیح یا بروز مسیح ہوں گے اور وہ اس طرح کے کام سرانجام دیں گے انہی لوگوں نے جب چاہا کسی ایک کو مسیح قرار دے لیا جب اس کا خاتمہ ہوگیا تو نظریہ تو ابھی اسی طرح موجود تھا وہ کہیں نہ کہیں سے پھر سر نکالنے لگا اس طرح ہوتے ہوتے کئی مسیح پیدا ہوئے اور جب ان کا گلا دبا دیا گیا تو یہ نظریہ کسی نہ کسی جگہ سے پھر سر نکالنے لگا اور اب بھی یہ نظریہ اپنی جگہ قائم ہے جو اس مسیح کی آمد کے منتظر ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر انتظار میں ہیں اور جو مثیل وبروز اور اس طرح کے دوسرے بکھیڑوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی پیدا ہونے والے کا نام مسیح رکھ لیتے ہیں اور اس خواب کو کتنوں نے دیکھا ہے اور ابھی معلوم نہیں کتنے دیکھیں گے اور آگیا ، آگیا کے نعرے اب دوبارہ بلند ہونے والے ہیں جو لوگ مشرق وسطیٰ کی موجودہ حالت سے واقف ہیں وہ اس دعویٰ کو اسی طرح دیکھ رہے ہیں جیسے گویا وہ ایک ہونے والی بات کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس طرح اب بھی اور جب بھی اور جس وقت بھی یہ دعویٰ ہوگا تو یہودیوں ہی کی طرف سے ہوگا اور بلا شبہ یہ وہ وقت ہوگا کہ عیسائیوں کی آنکھیں کھلیں گی کہ ہم نے جس مارآستین کو تحفظ دیا ہے اس نے ہوش سنبھالتے ہی پہلا حملہ انہی لوگوں پر کردیا جو اس کو ہر طرح کی سردی گرمی سے بچانے والے تھے۔ ہم ہوں گے یا نہیں لیکن دیکھنے والے دیکھیں گے کہ اس کا انجام کتنا خطرناک ہوتا ہے اور یہی حادثہ ایک قیامت کا سماں پیدا کردے گا جس کے اثر سے شاید ہی کوئی ملک بچ سکے ” ہر کمالے رازوالے “ ایک فطری چیز ہے جن کو آج کمال حاصل ہے کل یقینا ان کو زوال بھی آئے گا۔ ختم نبوت کا اعلان انہی بکھیڑوں سے نجات دلاتا تھا لیکن لوگوں نے غور نہ کیا جب نبی اعظم وآخر ﷺ کی نبوت و رسالت جملہ اقوال عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ جب نبی اعظم وآخر ﷺ پر نازل شدہ کتاب بغیر کسی ادنیٰ تحریف کے من وعن ہمارے پاس موجود ہے۔ جب نبی اعظم وآخر ﷺ کی سنت مبارکہ اپنی ساری تفصیلات کے ساتھ اس کتاب کی تشریح و توضیح کررہی ہے اور جب قرآن کریم کی زیر نظر آیت آج بھی بدستور اسی طرح اعلان کررہی ہے کہ اب رہتی دنیا تک کسی نئے یا پرانے نبی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جب قرآن نے تکمیل دین کا اعلان عام کردیا ہوا ہے کہ { الیوم……………… دینا } (المائدہ 3:5) تو پھر کسی اور نبی کا کیا فائدہ اور کیا ضرورت ؟ اس سے کسی مقصد کی تکمیل مطلوب ہے ؟ سورج روشن ہو تو چراغ چلانے والوں کو کیا کہا جائے گا اور اگر کوئی جلائے گا تو آخر اس کا فائدہ ؟ کیا سورج کی موجودگی میں چراغ جلاتا عقل مندی کا کام ہے۔ پھر غور کرو کہ نبی ورسول کوئی معمولی بات نہیں کہ نبی ورسول آیا۔ چلو میں نے مان لیا اور جس نے نہیں مانا خیر ہے کوئی بات نہیں۔ نہیں ! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کی بعثت کے بعد کفر اور اسلام کی کسوٹی نبی کی ذات بن کر رہ جاتی ہے کوئی کتنا ہی نیک پاکباز اور پارسا کیوں نہ ہو اگر وہ کسی سچے نبی ورسول کی نبوت و رسالت کو تسلیم نہیں کرے گا تو اس کا نام مسلمانوں کی فہرست سے کاٹ دیا جائے گا اور کفار ومنکرین کے زمرہ میں وہ داخل ہوگا اس لئے اس کو کوئی معمولی بات نہ سمجھو اور اس طرح یہ بھی کہ جب کوئی غیر نبی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے گا تو دعویٰ کرتے ہی وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور جو شخص اس کی نبوت و رسالت کو مان لے گا وہ بھی اسلام سے خارج ہوجائے گا اس لئے ” خاتم النبیین “ کا اعلان معمولی اعلان نہیں ہے جس سے اس طرح کے سارے بکھیڑے ختم ہوجاتے ہیں کہ آج تک جن جن کا انتظار ہوتا رہا ، ان میں سے جن کو آنا تھا وہ یقینا آگئے ، اب کسی نئے یا پرانے کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کسی کے پیدا ہو کر اس طرح کے دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش باقی ہے ؟ ہاں امت محمدی میں اللہ کے نیک بندے محمد رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی سچی تعلیم کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہیں گے اور یہ سلسلہ اب رہتی دنیا تک اسی طرح چلتا رہے گا جب بھی کوئی بکھیڑا باز اور شوشہ آدمی اپنے اس طرح کے بکھیڑے یا شوشے کا اعلان کرے گا تو اسی وقت اس کا سرکاٹ دیا جائے گا اور اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوگی لیکن افسوس کہ لوگوں نے اس بات پر جس طرح غور کرنا چاہیے تھا اس طرح غور نہ کیا اور اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ؎ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق ختم نبوت کے بعد کسی نبی کے دوبارہ آنے کا مطلب کیا ؟ ہم نے قبل ازیں بیان کردیا ہے کہ یہ نظریہ دراصل یہود سے آیا۔ یہودیوں کے ہاں مسیح (علیہ السلام) سے قبل ہی یہ نظریہ موجود تھا چناچہ مسیح (علیہ السلام) آئے تو وہ یہود کے اس مزعومہ نبی کے کو ائف پورے نہیں کرتے تھے اور دوسری وجہ اس کی یہ ہوئی کہ یہودیوں کے ہاں منذور لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں شادی نہیں کرتے تھے اگرچہ یہ تخیل ان کا اپنا گھڑا ہوا تھا تاہم موجود ضرور تھا اور جب مریم نے منذرہ ہونے کے باوجود اس رسم بد کو توڑتے ہوئے شادی کرلی تو وہ مریم کے سخت مخالف ہوگئے ، ان کی مخالفت اس وقت ٹھنڈی پڑی جب مریم کے خاوند نے مریم کی پاکبازی کے باعث اور منذرہ ہونے کے باعث دل میں ازواجی تعلق قائم نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا اس طرح یہ معاملہ یاس میں پڑا تھا کہ مریم کو بچے کو خوشخبری سنائی گئی اور جو مریم کے ہاں بچہ نہ ہونے کی روک تھی اس کے اٹھائے جانے کا اعلان الٰہی ہوا ادھر اللہ نے اس کے شوہر کے دل میں جو خیال جم گیا تھا اس کو بھی رفع کردیا اور اللہ نے بگڑی حالت کو اپنے دست قدرت سے درست کردیا اور بحمداللہ مریم حاملہ ہوگئیں تو مریم کا چچیرا بھائی ان کو ساتھ لے کر یروشلم سے نکل گیا اور انجام کار مصر کو ہجرت کرگئے اور جب تک عیسیٰ (علیہ السلام) سن بلوغت کے قریب نہیں پہنچے وہ واپس نہ آئے۔ بارہ سال کی عمر میں قوم سے مریم اور اس کے بیٹے کی پہلی ملاقات ہوئی اور اس پہلی ملاقات ہی میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے بڑے بڑے راہبوں اور احبارورہبان کے چھکے چھڑا دیئے ، قوم کے وڈیروں نے آپ کے حسب ونسب پر طعن کیا کیونکہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جس سے عوام کے جذبات کو وہ بھڑ کا سکتے بہرحال عیسیٰ علیہ اسلام کی زندگی کے دن تو کٹے جیسے کٹے لیکن ادھر یہوداپنے اس دعویٰ ” مسیح موعود “ میں زیادہ پکے ہوگئے کیونکہ اس نظریہ کے قائم رکھنے ہی میں وہ لوگ موجودہ مسیح (علیہ السلام) کا انکار کرسکتے تھے اس ضد کا نتیجہ وہی نکلا جو اکثر نکلا کرتا ہے کہ عیسائیوں کے ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) آچکے تھے لیکن یہودیوں کے ہاں ان کا آنا ابھی باقی تھا یہ کشمکش جاری تھی کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی بعثت ہوگئی تو آپ ﷺ نے مسیح (علیہ السلام) کے معاملہ میں جو افراط وتفریط تھی اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس طرح ختم کرنے کی کوشش کی کہ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق اعلان کیا کہ { ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقۃ کانا یا کلن الطعام } (المائدہ 75:5) ” مریم کا بیٹا مسیح اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کا ایک رسول ہے اس سے پہلے بھی کتنے رسول ہوچکے اور اس کی ماں صدیقہ تھی ، دونوں کھانا کھاتے تھے۔ “ اس طرز کلام پر ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ کیا ثابت ہوا ؟ یہی کہ مسیح کی حیثیت دوسرے گزرے ہوئے نبیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے جیسے دوسرے رسول تھے ویسے ہی عیسیٰ ابن مریم بھی اللہ کا ایک رسول تھا اور اس کی ماں بھی رسم بد کو توڑنے میں بالکل سچی تھی کیوں ؟ اس لئے کہ تمہاری یہ رسم بالکل ایک اختراعی چیز تھی ، دین کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لئے جو کچھ مریم نے کیا بلا شبہ اللہ کے حکم سے کیا۔ گویا جس طرح پہلے رسول صحیح النسب تھے عیسیٰ (علیہ السلام) بھی صحیح النسب تھے اور ظاہر ہے کہ نسب والد سے ہوتا ہے نہ کہ والدہ سے اور اس کی وضاحت رسول اللہ ﷺ نے کردی ہے کہ جو صحیح النسب نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا اور جس طرح دوسرے رسول اس دنیا میں اپنے اپنے وقت پر آئے اور چلے گئے بعینہ اسی طرح اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) بھی دنیا میں آئے اور چلے گئے گویا مسیح (علیہ السلام) اور دوسرے نبیوں میں کوئی استثنائی بات نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسیح ایک رسول کے سوا کچھ اور بھی تھے۔ یہ محض لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا اور ایک گروہ نے ان کو صحیح النسب تسلیم نہ کیا اور دوسرے گروہ نے ان کو اللہ یا اللہ کا بیٹا بنا لیا اور ظاہر ہے کہ صحیح النسب تسلیم نہ کرنے والے یہود تھے جنہوں نے آپ کی نبوت سے انکار کیا تھا اور اللہ یا اللہ کا بیٹا تسلیم کرنے والے عیسائی تھیے اور دونوں ہی گروہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت کے مطابق ان کو تسلیم نہ کیا ایک گروہ نے افراط سے کام لیا اور دوسرے نے تفریط سے۔ اسلام نے ان کی صحیح اور درست پوزیشن واضح کی اور جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے رسولوں کو گزرے ہوئے رسول قرار دیا ان کو بھی ایک گزرا ہوا رسول تسلیم کیا اور پھر اس نظریہ کی مزید وضاحت اس آیت نے کردی جس میں نبی اعظم وآخر ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ { وما محمد……… …… اعقابکم } (آل عمران 144:3) ” محمد اس کے سوا کیا ہیں کہ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی اللہ کے رسول گزر چکے ہیں اگر ایسا ہو کہ وہ وفات پاجائیں یا ایسا ہو کہ لڑائی میں قتل ہوجائیں تو کیا تم الٹے پائوں راہ حق سے پھر جائو گے “۔ اور ان کے مرنے کے ساتھ ہی تمہاری حق پرستی بھی ختم ہوجائے گی ؟ واضح ہوگیا کہ جس طرح کوئی نبی ورسول بھی اس دنیا سے رخصت ہو کر جانے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں نہیں آئے گا بالکل اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس دنیا میں آنے کے بعد اور پھر رخصت ہوجانے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی قرآن کریم نے مسیح (علیہ السلام) کو اس ضابطہ الٰہی سے کہیں مستثنیٰ قرار دیا ہے اور جب کوئی آئے گا نہیں تو یہ بحث خود بخود ختم ہوجائے گی کہ نہ تو عیسیٰ ابن مریم زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے کہ ان کو دوبارہ اس دنیا میں لاکر کوئی ایسا کام باقی رہ گیا ہے جو انہی سے حل کروانا ہے اور نہ ہی کسی کا اس نام سے پیدا ہو کر آنے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی کے متعلق مان لیا جائے کہ چونکہ مسیح کو دوبارہ پیدا ہو کر آنا تھا لہٰذا آگیا اور آکر چلا بھی گیا ہے یہ سب کہانی لغو ہے اور جس آنے والے نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے وہ اس دعویٰ میں سراسر جھوٹا ہے اور اس کے اس نظریہ میں سچائی کا ایک شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔ یہ خبط وجنون ہے علاوہ ازیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ہمارے نبی کریم ﷺ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے محض یہودونصاری کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اگر مسیح دوبارہ آجائیں تو وہ تمہارے ان کاموں میں سے اور ان نظریات میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں جو تم کر رہے ہو اور اس طرح یہ گویا ان دونوں فریقوں کے لئے ایک چیلنج تھا جس کا مفہوم یہودونصاری ہی کے نظریات کے مطابق ان کو سمجھانے کی کوشش کی گئی اور اس طرح کے کنایہ قرآن کریم اور احادیث کی زبان میں عام ہی بلکہ ہر زبان میں وہ مستعمل ہیں کہ مخالف کے نظریات کو مدنظر رکھ کر ان کا رد کیا جائے تاکہ الجھائو کی بجائے سلجھائو پیدا ہو اور جب اس طرح کی بات کی جاتی ہے اس وقت یقینا الجھنے والا الجھاد سے باز آجاتا ہے مثلاً یہود کا ایک نظریہ تھا کہ آنے والا نبی ورسول اپنی قربانی پیش کرکے اگر اس کی قربانی کو آسمانی آگ کھاجائے تو وہ دعویٰ نبوت میں سچا ورنہ اس کا یہ دعویٰ باطل تصور کیا جاتا حالانکہ یہود کا یہ نظریہ بالکل من گھڑت اور اختراعی تھا کیونکہ یہ بات اللہ نے کسی نبوت کے دعویدار کے لئے مقرر نہیں کی تھی۔ جب نبی کریم ﷺ آئے تو انہوں نے اپنے اس مزعومہ دعویٰ کے مطابق اپنا مطالبہ پیش کردیا کہ ہمارے ہاں نبی ورسول کی یہ پہچان بتائی گئی ہے لہٰذا آپ ﷺ بھی اس کے مطابق اپنی قربانی پیش کریں ان کے اس اختراعی نظریہ کو قرآن کریم نے براہ راست باطل قرار دے کر ایک الجھائو نہیں پیدا کیا بلکہ ان کو اس انداز سے جواب دیا کہ وہ آئندہ اس طرح کا سوال ہی نہ اٹھائیں۔ اس لئے کہ اس وقت یہی مقصود ومطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن کریم نے ان کے سوال اور اس کے جواب کو اس طرح نقل کیا ہے فرمایا : { الذین……………… النار } (183:3) ” جو لوگ کہتے ہیں اللہ ہم سے عہد لے چکا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک کہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لیتی ہو “۔ حالانکہ اللہ نے ان کو قطعاً یہ حکم نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت وہ پیش کرسکتے تھے لیکن اس وقت اگر ان کے اس نظریہ کا رد کرنا شروع کردیا جاتا تو مزید ایک جھگڑا کھڑا ہونا تھا اور ایک نئی بحث چھڑنے کا خطرہ تھا لہٰذا قرآن کریم نے ان کے اس نظریہ کا بظاہر رد نہیں کیا اور نہ ہی تردید کی بلکہ ان کو جواب دیا کہ { قل جاء کم رسول من قبلی بالبینت وبالذی قلتم فلم قتلتموھم ان کنتم صدقین } ” تم ان سے کہہ دو (کہ اگر تمہاری قبول کی کسوٹی یہی ہے تو) مجھ سے پہلے اللہ کے کتنے ہی رسول سچائی کی روشن دلیلوں کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور اس بات کے ساتھ آئے جس کے لئے تم کہہ رہے ہو پھر اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو کیوں تم انہیں قتل کرتے رہے “۔ اس طرح ایک طرف جواب کا جواب ہوگیا اور ایک نئے جھگڑے سے بھی بچے ورنہ یہود کا یہ نظریہ محض ایک گھڑی ہوئی بات تھی جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ غور کرو کہ اس وقت مسلمانوں میں کتنے نظریات ایسے ہیں جن کو وگیا اسلام کے پختہ عقائد کے طور پر کیا جارہا ہے۔ کسی انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک کتنی رسومات ہیں جن کو فرائض سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بلکہ فرائض ان کے سامنے کوئی چیز ہی نہیں ہیں حالانکہ ان کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ، کسی بستی ، گائوں ، قصبہ اور شہر میں چلے جائو گیارہویں کی نیاز کا کہاں اور کس جگہ تذکرہ نہیں بلکہ اکثریت ان کی قائل اور زور وشور سے منانے والی ہے ، اس کو متبرک خیال کیا جاتا ہے لیکن خدا لگتی کہو کہ اس کا تعلق کوئی اسلام کے ساتھ بھی ہے۔ مرنے کی رسومات کو لے لیں کہ یہ تیسرا ہے ، قل ہے ، ساتواں ، دسواں ہے ، چالیسواں ہے کیا یہ اسلام کی رسومات ہیں ؟ حاش اللہ کہ ان کا کوئی تعلق اسلام کے ساتھ ہو لیکن کس پابندی کے ساتھ ان کو ادا کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح بیسیوں نہیں سینکڑوں چیزیں یہود میں اور نصاریٰ میں ایسی تھیں جن کا تعلق اس وقت ان کے دین کے ساتھ بھی نہیں تھا لیکن وہ ان کو یہودیت و عیسائیت کا معیار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے ان کو اس طرح پکڑا کہ وہ چلنے کے نہ رہے اور بظاہر ان کے ساتھ کوئی جھگڑا بھی کھڑا نہیں کیا جس سے جھگڑا زیادہ اور مشبت پہلوکو نکلتا ہو اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ لیکن افسوس کی بعد میں آنے والے علمائے اسلام نے بھی انہی چیزوں کو عقائد میں لاکر داخل کردیا اور آج جو شخص ان کے رد کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی را میں یہی علمائے اسلام جو اپنے اپنے دور کے متبحر علمائے کرام تھے سد راہ ہوتے نظر آتے ہیں اور عوام تو بجائے اس کے کہ ان رسومات کی پیروی کریں جو اسلام کے نام سیان کو دے دی گئی ہیں تحقیق کی جستجو کر ہی نہیں سکتے اور خواص اس کو استروں کو مالا کی پیروی کریں جو اسلام کے نام سے ان کو دے دی گئی ہیں تحقیق کی جستجو کر ہی نہیں سکتے اور خواص اس کو استروں کی مالا سمجھ کر گلے کا ہار بنانے کے لئے تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے انہی نظریات کی ترجمانی میں لگے رہیں جو نظریات کسی مکتب فکر نے اپنا لئے ہیں تاکہ اس طرح کرنے سے مکتب فکر کی چھاپ قائم رہ سکے اور ہر مکتب فکر کے علماء کرام کو اس کے ساتھ منسلک عوام کام دے سکیں اور ان کے حلوے مانڈے کا کام چلتا رہے۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم میں مسیح (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر چڑھ جانے اور کسی خاص وقت میں نازل ہونے کا ذکر تو کیا اشارہ تک موجود نہیں حالانکہ عقائد کا تعلق اشاروں کنایوں پر نہیں قائم کیا جاتا بلکہ اسلام کے جتنے عقائد ہیں سب قرآن کریم میں دو ٹوک الفاظ میں موجود ہیں اور جو باتیں دو ٹوک اور واضح نہیں وہ عقائد نہیں ہوسکتے کیونکہ بنیاد کسی مبہم اور غیر واضح بات پر نہیں رکھی جاسکتی۔ ان باتوں کو نظریات سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور نظریات بلا شبہ کیسی نیاد کے ساتھ یقینا تعلق رکھتے ہیں تاہم ان کو اصل یا بنیاد نہیں کہا جاسکتا۔ یہ بات اس جگہ اس لئے عرض کی جارہی ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایک اصل اور بنیاد ہے جس کو عقیدہ کہتے ہیں لیکن مسیح (علیہ السلام) کی حیات وممات کا تعلق عقیدہ سے نہیں بلکہ نظریات سے ہے اور اسلام میں اتنی وسعت موجود ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات کو کھلے طور پر پیش کرسکتا ہے اور دوسرے کو حق ہے کہ وہ اس کا کھل کر اگر رد کرسکتا ہے تو کرے اور دونوں طرف سے جو دلائل دیئے جائیں ان پر غوروفکر کرکے عوام و خواص نتیجہ خود نکال سکتے ہیں لیکن کوئی نظریہ بھی اصل یا بنیاد ہگز نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم فروعات کو اصولوں سے بھی اوپر لے جاتے ہیں اور نظریات کے سامنے عقائد وبنیادوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے اور یہ وہی غلو ہے جس سے قرآن کریم نے دوسری قوموں کو بھی بار بار روکا ہے کہ غلو سے باز آجائو کیونکہ غلو انسان کو حقیقت سے بہت دور لے جاتا ہے۔ عوام تو پہلے ہی کالانعام ہوتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے خواص بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس طرح وہ غلو سے باز آنے کے لئے تیار نہیں۔ ان احادیث کی مزید وضاحت انشاء اللہ کسی دوسرے مقام پر کی جائے گی جن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کا ذکر کیا گیا ہے فی الحال اس اصل عظیم کو نگاہ میں رکھیں کہ اس طرح کے جو اشارات آپ ﷺ نے فرمائے ان کا تعلق یہود ونصاریٰ کے نظریات سے تھا جن کو انہوں نے عقائد بنالیا تھا اور اس طرح پورے دین کا جو انبیاء کرام لے کر آئے تھے انہوں نے حلیہ بگاڑ دیا تھا ان کو وقتاً فوقتاً آپ ﷺ نے مخاطب کرکے انبیاء کرام اور خصوصاً عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو زمانہ کے لحاظ سے بھی آپ ﷺ کے زیادہ قریب تھے اور بنی اسرائیل کے سلسلہ نبوت کے بھی خاتم تھے اور یہودیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں نے دعوت اسلام کو بھی زیادہ قبول کیا تھا اور اس وقت یہود جتنی مخالفت بھی انہوں نے نہیں کی تھی بلکہ ہر لحاظ سے وہ اسلام کے زیادہ قریب تھے اور یہودیوں کے مقابلہ میں بہت کم سازشیں کرتے تھے ان کی تفیہم کے لئے نبی اعظم وآخر ﷺ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات اور عیسائیوں کے موجودہ نظریات و عقائد کا تقابل بھی اکثر پیش کیا اور انہیں کے نظریات کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا ذکر بھی ان کے سامنے فرمایا جس سے محض یہ باور کرانا مقصود تھا کہ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) آتے ہیں جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو وہ تمہاری ان تعلیمات کی یقینا نفی کریں گے جن تعلیمات کو تم نے عیسائیت کی تعلیمات سمجھ رکھا ہے جیسا کہ اوپر مثال پیش کی گئی ہے۔ غور کرو کہ اصل بات کیا تھی اور بعد میں آنے والوں نے اس کو کیا بنادیا ۔ واللہ المستعان علی ماتصفون۔ عقل انسان کو کیوں عطا کی گئی ؟ اس لئے کہ انسان غوروفکر کرکے بلا شبہ اس معاملہ میں بھی وہ غور وفکر کرے تو اس کی عقل خود یہ کہے گی کہ جب تمام دنیا کے لئے ایک نبی ورسول بھیج دیا جائے اور پھر اس رسول کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کا اعلان بھی کردیا جائے اور اس نبی کی تعلیم کو محفوظ کردینے کا اعلان بھی کردیا جئے تو اب کیا ہونا چاہیے ؟ یہی کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہونا چاہیے تاکہ اس آخری نبی کی جو ساری دنیا کے لئے بھیجا گیا ہے پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا ہمیشہ کے لئے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں بار بار تفرقہ برپا نہ ہوتا رہے نبی خواہ ” ظلی “ ہو یا ” بروزی “ ” امتی “ ہو یا صاحب شریعت و کتاب ” نیاہو “ یا ” پرانا “ بہرحال نبی ہوگا اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں یہ بات اس وقت تک جائز اور درست تھی جب تک نبی کسی ایک جماعت ، گروہ ، خاندان اور قوم کے لئے بھیجے جاتے تھے جب پوری نوع انسانیت کے لئے ایک نبی ورسول بھیج دیا گیا تو اب کسی اور کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر و ایمان کی کش مکش میں مبتلا کرے اور ان کو ایک امت بنانے کے بعد دوبارہ ان میں تفریق ڈال دے اس لئے ہر صاحب عقل اس کی تصدیق کرے گا جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے اور جو کچھ احادیث سے واضح ہے وہ یہی ہے کہ اب کسی آنے والی کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی اس لئے یہ اعلان کیا گیا کہ نبی اعظم وآخر ﷺ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آئے گا جو شخص نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے وہ ایمان واسلام سے خارج سمجھا جائے گا اس لئے ضروری ہے کہ وہ تائب ہو اور اگر وہ تائب نہ ہو تو اس کو ختم کردیا جائے تاکہ یہ فتنہ ختم ہو۔ مختصر یہ کہ اب کسی آنے والے پر ایمان رکھنا اور اس کو ایمان کا جزو قرار دینا خواہ وہ ” نیاہو “ یا ” پرانا “ اسلام کا عقیدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سراسر ختم نبوت کے عقیدہ کے خلاف ہے اور ختم نبوت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے لئے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ ہے جس پر اسلام کا انحصار ہے۔ جس کی وضاحت اس زیر نظر آیت میں کی گئی ہے جس کی تفسیر اس جگہ کی جارہی ہے۔ مزید وضاحت انشاء اللہ { ذلک عیسیٰ بن مریم } میں ملے گا جو اس سلسلہ میں ہماری طرف سے ایک فیصلہ کن کتاب ہے جو انشاء العزیز عنقریب طبع ہوگی۔ فرمایا ” اللہ تعالیٰ ہرچیز کو جاننے والا ہے “ جس اس نے محسن انسانیت کو اپنا رسول بنایا اور پھر اس کی ذات پر نبوت کو ختم کردینے کا اعلان فرمایا تو ہرچیز کو اچھی طرح جانتا ہے… دنیا کے حالات کچھ بھی ہوں معاشی اور سیاسی میدانہ میں کتنے ہی انقلاب بپا ہوں ، ہر قوم کے لئے ہر زمانہ میں فلاح دارین کا راستہ دکھانے کے لئے اب کسی دوسرے نبی کی ضرورت نہیں نہ نئے اور نہ پرانے ۔ اس لئے کہ سلسلہ نبوت بند کرنے کا فیصلہ کسی ایسی ہستی کا نہیں جو آنے والے حالات سے بیخبر ہے ، مختلق قوموں اور ملکوں کی ضرورت سے ناواقف ہے بلکہ یہ فیصلہ اس ذات خداوندی کا ہے جو کائنات کی ہرچیز سے واقف ہے اور ان تمام امور سے بھی باخبر ہے جن پر عالم انسانیت کی فلاح وبقا کا انحصار ہے اس لئے اس کے فیصلے اٹل ہیں جو کبھی منسوخ نہیں ہوسکتے اور ان میں سے کسی ترمیم کی قطعاً گنجاس نہیں ہے اور بلا شبہ اللہ کا فیصلہ ہی رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے جس طرح رسول کے فیصلے میں کوئی انسان خواہ وہ کون ہے ترمیم وتنسیخ نہیں کرسکتا اسی طرح کوئی اللہ کا رسول بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں ترمیم وتنسیخ کا حق نہیں رکھتا۔ فافم فتدیر۔
Top