Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 92
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے (اب) نازل فرمائی ہے اس کو مانو تو کہتے ہیں کہ جو کتاب ہم پر (پہلے) نازل ہوچکی ہے ہم تو اسی کو مانتے ہیں (یعنی) یہ اس کے سوا اور (کتاب) کو نہیں مانتے حالانکہ وہ (سراسر) سچی ہے اور جو ان کی (آسمانی) کتاب ہے اس کی بھی تصدیق کرتی ہے (ان سے) کہہ دو کہ اگر تم صاحب ایمان ہوتے تو خدا کے پیغمبروں کو پہلے ہی کیوں قتل کیا کرتے
(2:91) اذا قیل لہم ۔۔ انزل اللہ جملہ شرطیہ ہے قالوا ۔۔ علینا جواب شرط ہے۔ اور ویکفرون بما ورآءہ جملہ حالیہ ہے قالوا کی ضمیر مستتر سے وھو الحق مصدقا لما معہم : حال مؤکدہ ہے ما انزل اللہ سے مراد قرآن اور تمام کتب سماویہ ہیں ما انزل علینا سے مراد توراۃ ہے۔ ما وراء ہ۔ میں ما موصولہ ہے اور وراءہ مضاف، مضاف الیہ مل کر صلہ۔ مراد اس سے توارۃ کے علاوہ جو کتب سماویہ ہیں۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب توراۃ کے لئے ہے (جو ان ّیہود) پر نازل ہوئی۔ ورآئ۔ ورآئ۔ مصدر ہے لیکن اس کا معنی ہے آڑ۔ حد فاصل ۔ کسی چیز کا آگے ہونا یا پیچھے ہونا۔ علاوہ ۔ سوا۔ وھو۔ میں ھو ضمیر قرآن پاک کی طرف راجع ہے۔ یا قرآن اور انجیل کی طرف ۔ ما معہم، جو ان کے پاس ہے ۔ قل۔ ای قل یا محمد ﷺ ۔ ازاں بعد آیت کے آخر تک مقولہ ہے۔ فلم تقتلون ۔۔ من قبل جزا ہے جو شرط سے مقدم آئی ہے بعد کا جملہ ان کنتم مؤمنین۔ جملہ شرطیہ ہے۔ اگر تم ایماندار تھے تو خدا کے رسولوں کو پہلے کیوں قتل کیا کرتے تھے۔ فلم۔ میں فاء جواب شرط پر دلالت کرتا ہے (جزایہ ہے) لم میں لام تعلیل کا ہے۔ م۔ اصل میں ما تھا ۔ جو استفہامیہ ہے (کس لئے۔ کیوں) ما استفہامیہ کو ما خبر یہ سے جدا کرنے کے لئے الف کو حذف کردیا گیا۔ اسی طرح قرآن مجید میں فیم اور بم اور عم آیا ہے مثلا فمن تبشرون (15:54) تو کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو ۔ اور عم یتساء لون (78:1) (یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں۔ اور قالوا فیم کنتم (4:97) (فرشتوں نے) پوچھا تم کس حال میں تھے تقتلون بمعنی قتلتم ہے۔ مضارع کا صیغہ۔ از منہ گزشتہ میں ان کے قتل انبیاء کے فعل کے استمرار کو ظاہر کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ انبیاء کا قتل کرنا اگرچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے یہودیوں کے آباء و اجداد سے ظہور میں آیا تھا۔ لیکن چونکہ یہ خلف اپنے سلف کے افعال سے راضی اور ان کے متبع ہیں اس لئے ان کے قتل کو ان کی طرف بھی منسوب کردیا گیا ہے۔
Top