Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 158
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
بَلْ : بلکہ رَّفَعَهُ : اس کو اٹھا لیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْهِ : اپنی طرف وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا : یہ صاف و صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے عیسیٰ ؑ کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث بخاری و مسلم سمیت حدیث کی اکثر کتابوں میں موجود ہیں۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام : 3448۔ مسلم : 155 ] ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول اور دوسری بہت سی باتوں کا ذکر ہے۔ ابن کثیر ؓ یہ تمام روایات ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ سے متواتر ہیں، ان کے راویوں میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبداللہ بن عمرو بن عاص، مجمع بن جاریہ، ابو سریحہ اور حذیفہ بن اسید ؓ شامل ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی کیفیت اور جگہ کا بیان ہے۔ آپ دمشق میں منارۂ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یا جوج ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بد دعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ مسیح ؑ کا اپنے جسم کے ساتھ اٹھایا جانا، وہاں ان کا زندہ موجود ہونا، دوبارہ دنیا میں آ کر کئی سال رہنا اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مرنا امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے، جس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں : ”اِتَّفَقَ أَصْحَابُ الْأَخْبَارِ وَالتَّفْسِیْرِ عَلٰی أَنَّ عِیْسٰی رُفِعَ بِبَدَنِہٖ“ [ التلخیص الحبیر ] ”تمام اصحاب تفسیر اور ائمۂ حدیث اس پر متفق ہیں کہ عیسیٰ ؑ اپنے بدن سمیت آسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔“ لہٰذا حیات مسیح کے انکار سے قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے جو سراسر گمراہی ہے۔ ”عزیزاً حکیماً“ کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسیح ؑ کا آسمان پر اٹھایا جانا عام فوت ہونے والوں کی طرح نہیں تھا۔
Top