Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 158
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
بَلْ : بلکہ رَّفَعَهُ : اس کو اٹھا لیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْهِ : اپنی طرف وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف105 اور اللہ ہے زبردست حکمت والا
105 وَمَا قَتَلُوْہُ کا اعادہ تاکید کے لیے ہے یعنی کسی قسم کا قتل واقع نہیں ہوا نہ سولی سے نہ بغیر سولی۔ کیونکہ نفی مطلق قتل کی ہے اور یقیناً نفی قتل کی تاکید ہے اور مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ہرگز قطعاً قتل نہیں کیا اور عدم قتل نہایت ہی پختہ اور ثابت شدہ حقیقت ہے حضرت حسن بصری فرماتے ہیں۔ وَ مَا قَتَلُوْہٗ حَقًّا اس پر علامہ ابو حیان لکھتے ہیں فانتصابہ علی انہ مؤکد لمضمون الجمۃ المنفیۃ کقولک و ما قتلوہ حقا ای حق انتفاء قتلہ حقا (بحر ج 3 ص 391) اسی طرح امام نفسی لکھتے ہیں و ما قتلوہ حقا فیجعل یقینا تاکیدا لقولہ و ما قتلوہ ای حق انتفاء قتلہ حقا (مدارک ج 1 ص 204) بَلْ رَفَعَہٗ اللہُ اِلَیْہِ یعنی جس کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اسے تو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے وہ ایسا کرسکتا ہے اور اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ان آیتوں کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ مسیح (علیہ السلام) کے رفع جسمانی میں احادیث نبویہ حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں جیسا کہ مولانا انور شاہ صاحب نے التصریح میں ان کو ذکر کیا ہے اور پھر اس عقیدہ پر امت کا اجماع بھی ہے کما فی البحر المحیط و عقیدۃ الاسلام۔ اس مسئلہ کی مزید تحقیق و تفصیل کیلئے عقیدۃ الاسلام از مولانا سید انور شاہ (رح) کا مطالعہ کیا جائے۔
Top