Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 77
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ١ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا وعدہ حَقٌّ ۚ : سچا فَاِمَّا : پس اگر نُرِيَنَّكَ : ہم آپ کو دکھادیں بَعْضَ : بعض (کچھ حصہ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُهُمْ : ہم ان سے وعدہ کرتے تھے اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ : یا ہم آپ کو وفات دیدیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
پس صبر کر، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر اگر کبھی ہم واقعی تجھے اس کا کچھ حصہ دکھادیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں، یا تجھے اٹھا ہی لیں تو یہ لوگ ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔
(1) فاصبر ان وعد اللہ حق : یعنی یہ لوگ جو آپ کو نیچا دکھانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، آپ ان کی ایذا پر صبر کا دامن تھامے رکھیں، کیونکہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے (کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد فرماتے ہیں۔) ہاں، اس میں کچھ تاخیر ہوسکتی ہے اور اس تاخیر میں بھی ہماری کئی حکمتیں ہیں۔ ہمارا یہ وعدہ دو طرح سے پورا ہوسکتا ہے۔ (2) فاما یرینکم بعض الذین نعدھم …: ایک یہ کہ ہم آپ کو اس عذاب کا کچھ حصہ دکھا ہی دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر آپ دنیا ہی میں ہماری مدد کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان کا عبرتناک انجام دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی، جیسا کہ بدر اور فتح مکہ میں ہوا۔”فاما نرینکم“ کا یہ جواب یہاں مقدر ہے اور سیاق سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم تجھے دنیا میں ان کا انجام دکھانے سے پہلے اٹھالیں، تب بھی یہ لوگ کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتے، بلکہ انہیں ہمارے پاس ہی واپس لایا جائیگا اور وہاں ان پر عذاب کا وعدہ پورا ہوگا جو آپ کی اور اہل ایمان کی نصرت کا ایک اظہار ہوگا۔
Top