Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 75
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ١ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا وعدہ حَقٌّ ۚ : سچا فَاِمَّا : پس اگر نُرِيَنَّكَ : ہم آپ کو دکھادیں بَعْضَ : بعض (کچھ حصہ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُهُمْ : ہم ان سے وعدہ کرتے تھے اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ : یا ہم آپ کو وفات دیدیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
پس ثابت قدیم رہو، بیشک اللہ کا وعدہ شدنی ہے۔ یا تو ہم تم کو اس کا کچھ حصہ، جس کی ان کو وعید سنا رہے ہو، دکھا دیں گے یا تم کو وفات دیں گے پس ان کی واپسی ہماری طرف ہو گی
آنحضرت ﷺ کے لئے تسلی یہ آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ ان لوگوں کی ان حرکتوں پر صبر کرو۔ جس عذاب کی دھمکی ان کو دی جا رہی ہے، اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ لازماً ظہور میں آ کے رہے گا۔ یا تو تمہاری زندگی ہی میں اس کا کچھ حصہ ظہور میں آئے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو بالآخر انہیں ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے، ہم آخرت میں ان کو اس کا مزا چکھائیں گے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی قوموں کو دو قسم کے عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک وہ عذاب جو اسی دنیا میں پیش آتا ہے اگر قوم رسول کی تکذیب کردیتی ہے اور دوسرا وہ عذاب جس سے آخرت میں سابقہ پیش آئے گا۔ یہاں ’ بعض الذی نعدھم ‘ سے اسی دنیا کے عذاب کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی عذاب آخرت کا ایک حصہ ہے جس سے تمام کفار و مشرکین کو لازماً آخرت میں سابقہ پیش آنا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قوم کو، رسولوں کی عام سنت کے مطابق، بصورت تکذیب اس دنیا میں بھی۔ عذاب کی وعید کی گئی تھی لیکن آپ کی قوم کی اکثریت اسلام لائی اس وجہ سے اس پر اس طرح کا کوئی عذاب نہیں آیا جس طرح کا عذاب سابق رسولوں کے مکذبین پر آیا بلکہ اس کے اشرار کا مواخذہ آخرت پر اٹھا رکھا گیا جس کی طرف ’ نالینا یرجعون ‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا گیا ہے۔
Top