Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا بیشک میں ان چیزوں سے بالکل بری ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔
(1) واذ قال ابراہیم لابیہ وقومہ…: یہاں ابراہیم ؑ کے قصے کی مناسبت یہ ہے کہ قریش اور قوم عرب سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے پیشوا اور جد امجد نے باپ کی راہ غلط دیکھ کر چھوڑ دی تھی، تم بھی ایسا ہی کرو۔ (2) اننی برآء مما تعبدون…:”برآئ“ مصدر ہے، واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر ر مونث کے لئے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے ، جو ”بری“ کے معنی میں ہے، مگر اس میں مبالغہ ہے، جیسے ”زید عادل“ میں وہ زور نہیں جو ”اتنا عادل ہے کہ سراپا عدل ہے) میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے تمام معبودوں سے سراپا برأت ہوں، دل ، زبان اور عمل کے ساتھ۔ غرض ہر طرح سے ان سے برأت کا اعلان کرتا ہوں، سوائے اس معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا۔ (3) الا الذی فطرنی : اپنے اس کلام میں ابراہیم ؑ نے صرف اللہ واحد کی عبادت کی دلیل بھی بیان فرمائی ہے۔ وہ ہے : (الا الذی فطرنی)”جس نے مجھے پیدا کیا۔“ یعنی عبادت اسی کا حق ہے جو پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں ابراہیم ؑ کے اللہ کے سوا تمام معبودوں سیا علن برأت کا ذکر ہے، دوسرے مقامات پر برأت کے علاوہ ان سے عداوت کا بھی اعلان ہے اور تقریباً ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے خلاق ہونے کی صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ (دیکھیے شعراء 75 تا 78۔ انعام : 78۔ 79) سورة ممتحنہ (4) میں باطل معبودوں کے ساتھ ان کے پجاریوں سے بھی برأت و انکار کے علاوہ کھلم کھلا بغض و عداوت کا اعلان ہے، جب تک وہ اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائیں۔ (4) فانہ سیھدین : سورة شعراء میں ابراہیم ؑ کا قول ہے :(الذی خلقنی فھو یھدین) (الشعراء :88)”وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا (اور اس پر چلاتا) ہے۔“ یہاں فرمایا :(فانہ سیھدین) یعنی جس نے مجھے پیدا کیا آئندہ بھی وہی مجھے سیدھی راہ پر چلاتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ یعنی ہدایت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جس کے ہاتھ میں خلق ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (77) ، شعراء (79) اور سورة صافات (99)۔
Top