Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ
: اور جب کہا
اِبْرٰهِيْمُ
: ابراہیم نے
لِاَبِيْهِ
: اپنے والد سے
وَقَوْمِهٖٓ
: اور اپنی قوم سے
اِنَّنِيْ
: بیشک میں
بَرَآءٌ
: بےزار ہوں
مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ
: اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو میں ان سے بیزار ہوں
آیت نمبر 26 تا 35 ترجمہ : اور اس وقت کا تذکرہ کرو کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو بجز اس ذات کے کہ جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے اپنے دین کی ہدایت بھی دے گا اور اس کو یعنی کلمہ توحید کو جو کہ اس کے قول اِنَّنِی تا سَیَھْدِیْنِ سے مفہوم ہے، اپنی اولاد میں باقی رہنے والی بات کر گئے چناچہ ہمیشہ ان میں توحید پرست رہیں گے تاکہ اہل مکہ اپنے موجودہ دین کو چھوڑ کر اپنا ابّا، ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی طرف آجائیں بلکہ میں نے ان مشرکوں کو اور ان کے آباء کو سامان راحت دیا، اور ان کی سزا میں جلدی نہیں کی، یہاں تک کہ ان کے پاس حق یعنی قرآن اور احکام شرعیہ کو ظاہر کرنے والا رسول اور وہ محمد ﷺ ہیں آگئے اور ان کے پاس حق قرآن پہنچتے ہی بول پڑے کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں اور کہنے لگے یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بستی کے کسی بڑے شخص یعنی مکہ میں ولید بن مغیرہ اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ کیا آپ کے رب کی رحمت نبوت کو یہ تقسیم کرتے ہیں ؟ (حالانکہ) ان کی دنیوی زندگی کی روزی (خود) ہم نے ان کے درمیان تقسیم کی، تو ہم نے ان میں سے بعض کو غنی اور بعض کو فقیر کردیا، اور ہم نے بعض کو بعض پر مالداری میں درجہ بدرجہ فوقیت دی تاکہ ان کا بعض یعنی مالدار بعض یعنی غریب سے اجرت پر کام لیتا رہے، اور سخریا میں یاء نسبتی ہے، اور ایک قراءت میں سین کے کسرہ کے ساتھ ہے، اور تیرے رب کی رحمت یعنی جنت اس سے بدر جہا بہتر ہے جسے یہ دنیا میں سمیٹے پھرتے ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ (یعنی) کفر پر ہوجائیں گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو اور زینوں کو بھی جن کے ذریعہ یہ چھتوں پر چڑھا کرتے چاندی کی بنا دیتے لِبُیُوتِھِم، مَنْ سے بدل ہے اور سُقْفاً سین کے فتحہ اور قاف کے سکون اور دونوں کے ضمہ کے ساتھ ہے اور ان کے گھروں کے دروازے چاندی کے اور ان کے تخت بھی چاندی کے کردیتے سُرُرٌ سریرٌ کی جمع ہے جن پر وہ ٹیک لگایا کرتے اور سونے کے بھی مطلب یہ کہ مذکورہ چیزیں کافر کو دینے میں، مومن کے بارے میں کفر کا اندیشہ نہ ہوتا تو یہ سب کچھ ہم ان کو دے دیتے اور یہ ہمارے نزدیک دنیا کی کوئی قدر نہ ہونے کی وجہ سے اور کافر کا آخرت کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا اور یہ سب کچھ دنیا کا معمولی سا فائدہ ہے جس سے دنیا میں انتفاع کیا جاسکتا ہے پھر زائل ہوجائے گا، اِنْ ثقلیہ سے مخففہ ہے اور لَمَّا تخفیف اور تشدید کے ساتھ اِلاَّ کے معنی میں ہے، لہٰذا اِنْ نافیہ ہے اور آخرت جنت تو تیرے رب کے نزدیک متقیوں ہی کے لئے ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : بَرَاءٌ مصدر بیزار ہونا، نفرت کرنا، مفسر علام نے بَرِیٌ سے تفسیر کر کے اشارہ کردیا بَرَاءٌ، بَرِیٌ صیغہ صفت بروزن فعیل ہے، اظہار بیزاری کرنے والا، مصدر جب صفت واقع ہو تو واحد، تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث سب برابر ہوتے ہیں۔ قولہ : اِلاَّ الَّذِی فطرَنی اس میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں (1) مستثنیٰ منقطع ای لکن الذی فطرنی یہ اس صورت میں ہوگا کہ وہ صرف بتوں ہی کی بندگی کرتے ہوں۔ (2) مستثنیٰ متصل اس صورت میں جبکہ خدا کے ساتھ بتوں کو شریک کرتے ہوں۔ (3) اِلاّ صفتی بمعنی غَیْرَ ہو، یہ زمخشری کا قول ہے۔ قولہ : جَعَلَھَا ای کلمۃ التوحید المفھوم الخ۔ سوال : ای کلمۃ التوحید الخ کے اضافہ کا مقصد کہ جَعَلَھَا کی ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ اگر کلمۃ ہے تو یہ ماقبل میں مذکور نہیں ہے۔ جواب : کلمۃ ما قبل میں اگرچہ صراحۃً مذکور نہیں ہے مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول اِنّنِیْ براءٌ مِمّا تعبدونَ سے مفہوم ہے۔ قولہ : بَل ھٰؤلاءِ المشرکین، بَلْ اضراب انتقالی ان کی عدم اتباع پر توبیخ و تقریع کے لئے ہے، ھٰؤلاء اسم اشارہ کا مشارٌ الیہ وہ مشرکین ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے۔ قولہ : حتّٰی جاءھم الحق یہ محذوف کی غایت ہے، تقدیر عبارت یہ ہے بَلْ مَتَّعْتُ ھٰؤلاء فَاشتغلوا بذٰلک التمتع حتّٰی جاءھم الخ۔ قولہ : مَعَارج، مَعْرَج میم کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ، کی جمع ہے، سیڑھیوں کو معارج کہنے کہ وجہ یہ ہے کہ سیڑھیوں پر لنگڑے کے مانند چڑھتے ہیں اور لنگڑے کو اعرج کہتے ہیں۔ قولہ : سُرُرًا یہ فعل محذوف کا مفعول ہے جیسا کہ مفسر (رح) تعالیٰ نے جعلنا محذوف مان کر اشارہ کردیا، اس کا عطف جَعَلْنَا لِمَنْ یکفُرُ پر ہے۔ قولہ : زُخُرُفًا یہ جَعَلْنَا فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے ای جَعَلْنَا لھُمْ مع ذٰلک زُخْرُفًا یا نزع خافض کی وجہ منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ تھی ای ابوابًا وسُرُرًًا من فضۃٍ ومن ذھبٍ ، مِن کے حذف ہونے کی وجہ سے زخرفاً منصوب ہوگیا۔ قولہ : وَاِنْ کُلُّ ذٰلک، اِنْ نافیہ ہے، اور کُلُّ ذٰلک مبتداء اور لَمَّابالتشدید بمعنی اِلاَّ اور مَتَاع الحیوٰۃ ِالدنیا اس کی خبر لمَّا کو تخفیف کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اس وقت اِنْ مخففہ عن الثقیلہ مہملہ ہوگا اور لام ان مخففہ اور نافیہ کے درمیان فارقہ ہوگا اور ما زائدہ ہوگا۔ قولہ : والآخرۃ واو حالیہ ہے، آخرۃ مبتداء ہے عِندَ رَبِّکَ للمتقین محذوف کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر ہے۔ تفسیر وتشریح ربط : وَاِذ قَالَ اِبراھیْمُ الخ گذشہ آیات کے آخر میں باری تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ مشرکین عرب کے پاس اپنے شرک پر سوائے اپنے باپ دادوں کی رسوم کے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے اور یہ بات بالکل ظاہر اور واضح ہے کہ عقلی اور نقلی دلائل کی موجودگی میں محض آباء و اجداد کی تقلید پر اصرار کرنا حق و انصاف سے کس قدر بعید ہے، اب ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر اپنے آباء و اجداد ہی کے راستہ پر چلنا چاہتے ہو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے راستہ پر کیوں نہیں چلتے جو تمہارے اشرف ترین جدا علیٰ ہیں، اور جن کے ساتھ نسبی وابستگی کو تم خود اپنے لئے سرمایہ صد افتخار سمجھتے ہو، وہ نہ صرف توحید کے قائل تھے بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس کی وصیت کر گئے، بلکہ ان کا طرز عمل تو یہ بتاتا ہے کہ واضح عقلی اور نقلی دلائل کی موجودگی میں محض باپ دادوں کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے، جس وقت وہ مبعوث ہوئے تو ان کی پوری قوم اپنے آباؤ اجداد کی اتباع میں شرک میں مبتلا تھی، لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کے بجائے دلائل واضحہ کا اتباع کرتے ہوئے اپنی قوم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا اِنَّنِی بَرَاءٌ مِمَّا تعبدونَ جن چیزوں کی تم بندگی کرتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ (معارف) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اپنی قوم کی بداعمالیوں اور بد اعتقادیوں سے اظہار براءت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص بد عمل یا بد عقیدہ لوگوں یا جماعت کے درمیان رہتا ہو اور خاموش رہنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہو کہ اس کو بھی اس گروہ یا جماعت کا ہم خیال سمجھا جائے گا تو محض اپنے عقیدے اور عمل ہی کا درست کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ اس گروہ کے عقائد و اعمال مشرکین سے علیحدہ وممتاز کرلیا بلکہ زبان سے بھی اظہار براءت کا اعلان فرمایا۔ وَجَعَلَھَا کلمۃً باقیۃً یعنی اس کلمہ توحید کی وصیت اور تاکید اپنی اولاد کو بھی کر گئے، جیسے فرمایا وَوَصّٰی بِھا ابراھیمُ بنیہِ ویعقوبُ (البقرۃ) بعض مفسرین نے جَعَلَ کا فاعل اللہ کو قرار دیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ توحید کو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اپنی ذات کے علاوہ اپنی اولاد کو دین صحیح پر کار بند اور عمل پیرا کرنے کی فکر بھی انسان کے فرائض میں شامل ہے، انبیاء (علیہم السلام) میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں بھی قرآن کریم نے بتایا ہے کہ ان حضرات نے وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو دین صحیح پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی، لہٰذا جس صورت سے ممکن ہو اولاد کے اعمال واخلاق کی اصلاح میں اپنی پوری کوشش صرف کردینا ضروری بھی ہے، اور انبیاء کی سنت بھی۔ وَ قَالُوا لَو لا نُزِّلَ ھٰذا القرآن علیٰ رجلٍمن القریتین عظیم ان آیات میں باری تعالیٰ نے مشرکین عرب کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے جو وہ آنحضرت ﷺ کی رسالت پر کیا کرتے تھے، شروع میں تو مشرکین مکہ یہ باور کرنے ہی کو تیار نہیں تھے کہ اللہ کا کوئی رسول انسان ہوسکتا ہے، چناچہ ان کا یہ اعتراج قرآن کریم نے جا بجا نقل کیا ہے کہ ہم ﷺ کو کس طرح رسول مان لیں جبکہ وہ عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں لیکن جب متعدد آیات قرآنی کے ذریعہ یہ ثابت کردیا گیا کہ دنیا میں جس قدر بھی انبیاء ورسل آئے وہ انسان ہی تھے اور محمد ﷺ کی طرح کھاتے پیتے بھی تھے، جب یہ کھانا پینا اور انسان ہونا سابقہ انبیاء کی نبوت کے لئے باعث نقص وننگ نہیں تو پھر محمد ﷺ کی نبوت کے لئے کیسے نقص یا باعث اعتراض ہوسکتا ہے، تو مشرکین عرب نے پینترا بدل کر یہ اعتراض کیا کہ اگر کسی انسان ہی کو نبوت سونپنی تھی تو حضور ﷺ تو مالی اعتبار سے کوئی بڑے صاحب حیثیت نہیں ہیں، لہٰذا یہ منصب آپ ﷺ کے بجائے مکہ اور طائف کے کسی بڑے دولت مند اور صاحب جاہ ومنصب انسان کو کیوں نہیں دیا گیا ؟ روایات میں ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے مکہ مکرمہ سے ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ اور طائف سے عروہ بن مسعود ثقفی، حبیب بن عمر ثقفی یا کنانہ بن عبد یا لیل کے نام پیش کئے۔ (روح المعانی) أھُم یقسِمُوْنَ رحمتَ ربِّکَ “ رحمت ”، نعمت کے معنی میں ہے اور یہاں سب سے بڑی نعمت، نبوت مراد ہے، استفہام انکار کے لئے ہے، یعنی یہ کام ان کا نہیں ہے کہ رب کی نعمتوں بالخصوص نعمت نبوت کو یہ اپنی مرضی سے تقسیم کریں بلکہ یہ صرف رب کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کا علم اور ہر شخص کے حالات سے پوری واقفیت رکھتا ہے وہی بہتر سمجھتا ہے کہ انسانوں میں سے نبوت کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے ؟ وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بعض یعنی مال و دولت، جاوہ منصب، عقل وفہم میں ہم نے یہ فرق اور تفاوت اس لئے رکھا ہے تاکہ زیادہ مال والا کم مال والے سے، بڑے منصب والا چھوٹے منصب والے سے اور عقل وفہم سے وافر حصہ پانے والا اپنے سے کم تر عقل و شعور رکھنے والے سے کام لے سکے، اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ سے کائنات کا نظام بحسن و خوبی چل رہا ہے، ورنہ اگر سب لوگ ہر چیز میں برابر و یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا، جس سے دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ لَوْ لاَ ان یکون الناسُ اُمَّۃ ً واحدۃً الخ اس آیت میں چار امر مذکور ہیں (1) مومنین کی رعایت کہ مبادا کافروں کی دولت کو دیکھ کر پھسل جائیں، اور دولت کو رضاء الٰہی سمجھنے لگیں (2) آخرت میں فوز و فلاح مومنین کے لئے خاص ہے (3) یہ کہ دنیا ذلیل ہے اور زیادہ تر کفار سے تعلق رکھتی ہے، مومن کی شان سے بعید ہے کہ ایسی حقیر وفانی چیز پر نظر وفخر کرے، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ملتا (4) سونے اور چاندی کی حرمت کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ جو چیز کفار کے لئے سزاوار ہو مومن کے لئے سزا وار نہ ہونا چاہیے، پھر یہ بھی اشارہ ہے کہ سونے چاندی کا مطلقاً استعمال منع نہیں اور یہ لَو لا سے سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ لَو لاَ کے ذریعہ نفی، ثبوت پر دلالت کرتی ہے، لہٰذا جہاں جہاں شارع سے منع ثابت ہے ممنوع ہے، جیسے اکثار مال، اور استعمال ظروف طلاء ونقرہ منع ہے، اور مردوں کے لئے لباس وزیور، فرمایا آپ ﷺ نے لا تشربوا فی آنیۃ الذھب والفضۃ لا تأکلوا فی اصحافھا فاِنَّھا لھم فی الدنیا، لَنَا فی الآخرۃ واِنما خوّ لھُم اللہ تعالیٰ فی الدنیا لحقارتھا (ترمذی) “ نہ کھاؤ پیو سونے چاندی کے برتنوں میں یہ کفار کے لئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں اور اللہ نے دنیا انہیں اس لئے عطا کی کہ وہ حقیر ہے ”۔ سوال : سونا چاندی کیوں ممنوع اور حقیر ہے حالانکہ دنیا میں معاش ومعیشت کا نظام اس کے ساتھ قائم ہے، نیز دینی و دنیوی حاجات کا وسیلہ ہے اور آخرت میں موعود اور بہشت میں موجود۔ جواب : ممانعت باعتبار اثر کے ہے اس لئے موجب تکبر و تفاخر اور باعث کمال محویت وتغافل، جس کی وجہ سے خلوص حب الٰہی کو مانع ہے، اور عورتوں کے لئے جواز یا تو بطور احسان ہے یا جنت کی نعمتوں کے نمونہ کے طور پر ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر)
Top