Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
(1) انما المومنون اخوۃ : لڑائی سے باز رکھنے کا سب سے موثر ذریعہ لڑنے والوں کو قربات کا احساس دلانا ہے کہ دیکھو تم کس سے لڑر ہے ہو ؟ اپنے ہی بھائی سے، یہ کتنی بری بات ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی دینی قربات کا احساس دلایا، جو نسبی قربات سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے جو لوگ نسبی قرابت کے باوجود ایک دوسرے کے شدید دشمن تھے، جیسا کہ اوس اور خزرج کا معاملہ تھا ، اللہ کی نعمت سے اسلام کی بدولت بھائی بھائی بن گئے۔ (دیکھیے آل عمران : 103) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(المسلم اخو المسلم لا یظلمہ، ولا یسلمہ) (بخاری، خ المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم ولایسلمہ : 2332، عن ابن عمر ؓ)”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرنا ہے اور نہ اسے بےیارو مددگار چھوڑتا ہے۔“ (2) فاصلحوا بین اخویکم :”اخ“ کا تثنیہ ”اخوان“ اور ”اخوین“ ہے جو ”کم“ کی طرف مضاف ہوا تو نون اعرابی گرگیا اور ”اخوی“ باقی رہا جو ”کم“ کے ساتھ مل کر ”اخویکم“ ہوگیا ، سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو ، وہ دو خواہ ایک ایک فرد ہوں یا ایک ایک جماعت ہوں۔ (3) واثقوا اللہ لعلکم ترحمون : یعنی صلح کرواتے وقت اس بات کو محلوظ رکھو کہ تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا رہے ہو، جن کا تمہارے ساتھ بھی اخوت کا رشتہ ہے۔ لہٰذا اس رشتے کا خیال رکھو اور پوری طرح عدل و انصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ ستے ڈرتے ہوئے اس طرح صلح کرواؤ کہ نہ کسی فریق کی حق تلفی ہو اور نہ کسی پر زیادتی ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوئے یہ فریضہ سر انجام دو گے تو یقینا ؓ تم پر رحم فرمائے گا۔“ لعل“ کا لفظ امید دلانے کے لئے ہوتا ہے، مگر بڑے لوگوں کے کلام میں اس سے یقین حاصل ہوتا ہے، کیونکہ امید دلا کر اسے پورا نہ کرنا ان کی شان کے لائق نہیں ہوتا۔ پھر جو شاہوں کا شاہ اور ساری کائنات کا مالک ہے وہ امید دلائے تو اس کے یقینی ہونے میں کیا شبہ ہے ؟ اس کے علاوہ ”لعل“ کا لفظ ”تاکہ“ کے معنی میں بھی آت ا ہے۔ مطلب یہ کہ ؓ کا رحم انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں، اس لئے بھائیوں کے درمیان صلح کرواتے ہوئے ؓ سے ڈرو اور عدل کے ساتھ صلح کرواؤ، تاکہ تم پر اللہ کا رحم ہو۔ (4) یہ آیت دنیا بھر کے مسلمانوں ک وایک برادری میں منسلک کردیتی ہے۔ مسلمان خواہ دنیا کے کسی دوسرے کونے میں ہو، دوسرے سب مسلمان اسے بھائی سمجھتے ہیں۔ اسلام کے سوا ایسا رشتہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ (کیلانی)
Top