Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
طَآئِفَتٰنِ
: دو گروہ
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں سے، کے
اقْتَتَلُوْا
: باہم لڑپڑیں
فَاَصْلِحُوْا
: توصلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا ۚ
: ان دونوں کے درمیان
فَاِنْۢ
: پھر اگر
بَغَتْ
: زیادتی کرے
اِحْدٰىهُمَا
: ان دونوں میں سے ایک
عَلَي الْاُخْرٰى
: دوسرے پر
فَقَاتِلُوا
: تو تم لڑو
الَّتِيْ
: اس سے جو
تَبْغِيْ
: زیادتی کرتا ہے
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَفِيْٓءَ
: رجوع کرے
اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ
: حکم الہی کی طرف
فَاِنْ
: پھر اگر جب
فَآءَتْ
: وہ رجوع کرلے
فَاَصْلِحُوْا
: تو صلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا
: ان دونوں کے درمیان
بِالْعَدْلِ
: عدل کے ساتھ
وَاَقْسِطُوْا ۭ
: اور تم انصاف کیا کرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُقْسِطِيْنَ
: انصاف کرنے والے
اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو ، پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(1) وان طآئفین من المومنین اقتلوا فاصلحوا بینھما : فاسق لوگوں کی خبر پر بلاتحقیق اعتماد کرلینے سے کئی دفعہ آپ س میں لڑائی ہوجاتی ہے اور کئی دفعہ ہر قسم کی پیش بندی کے باوجود لڑائی ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے موقع پر ان لوگوں پر لازم ہے جو اس لڑائی میں شریک نہیں کہ لڑنے والوں کے درمیان صلح کروا دیں۔ ان کے لئے جائز نہیں کہ مسلمانوں کو لڑتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دیں اور تماشا دیکھتے رہیں۔ (2) سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے :(ان اھل قباء اقتتلوا حتی تراموا بالحجارۃ فاخبر رسول اللہ ﷺ بذلک فقال اذھبوا بنا نصلح بینھم) (بخاری، الصلح ، باب قول الامام لاصحابہ اذھبوا…: 2693)”قبا میں رہنے والے لڑ پڑے، حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے۔ رسول اللہ ﷺ کو خبر لمی تو آپ ﷺ نے فرمایا۔”ہمارے ساتھ چلو، تاکہ ہم ان کے درمیان صلح کروائیں۔“ اور انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس جائیں تو بہتر ہے، تو آپ ﷺ گدھے پر سوار ہو کر گئے، مسلمان بھی آپ کے ساتھ پیدل چلنے لگے۔ وہ زمین شور والی تھی، جب رسول اللہ ﷺ اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا :”مجھ سے دور رہو، اللہ کی قسم ! تمہارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔“ ایک انصاری صحابی نے کہا :”اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کے گدھے کی خوشبو تجھ سے اچھی ہے۔“ عبداللہ بن ابی کی طرف سے اس کی قوم کا ایک آدمی غصے میں آگیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور چھڑی، ہاتھوں اور جوتوں کے ساتھ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی :(وان طآئفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھا) (بخاری ، الصلح ، باب ما جاء فی الاصلاح بین الناس :2691) (3) قرطبی نے فرمایا :”طائقہ کا لفظ ایک آدمی پر، دو پر اور زیادہ پر بھی بولاجاتا ہے۔”طآئفتن“ میں لڑنے والے دو آدمی بھی شامل ہیں اور دو جماعتیں بھی، چھوٹی ہوں یا بڑی۔ آیت میں لڑنے والے فریقوں کے درمیان صلح کروانے کا حکم ہے، خواہ دو مسلمان آپس میں لڑر ہے ہوں یا زیادہ۔“ (4) بعض احادیث میں کسی مسلمان سے لڑنے کو کفر اور لڑنے والوں کو کافر کہا گیا ہے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :(سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر) (بخاری، ایمان، باب خوف المومن من ان یحبط عملہ…:78)”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔“ اور عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا :(لاترجعوا یعدی کفار یضرب بعضکم رقاب بعض) (بخاری، الفتن، باب قول النبی ﷺ ”لاترجعوا بعدی کفارا…“:8088)”میرے بعد پھر کافر نہ ہوجانا کہ دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ امام بخاری اور دور سے ائمہ کرام نے فرمایا کہ آیت :(وان طآئفتن من المومنین) دلیل ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے لڑنے کے باوجود مسلمان ہی رہتے ہیں، اسلام سے خارج یا مرتد نہیں ہوجاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لڑنے والے دونوں فریقوں کو مومن قرار دیا ہے اور اس سے اگلی آیت میں بھی فرمایا :(انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم) (الحجرات : 10) ”مومن تو (آپس میں) بھائی ہی ہیں، سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو۔“ اسی طرح آیت قصاص میں قاتل کو مقتول کے وارث کا بھائی قرار دیا، فرمایا :(فمن عفی لہ من اخیہ شیءاتباع بالمعروف وادآء الیہ باحسان) (البقرۃ :188)”پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کردیا جائے تو معروف طریقے سے پیچھا کرنا اور اچھے طریقے سے اس کے پاس پہنچا دینا (لازم ہے۔“ رہا حدیث میں مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دینا تو اس سے وہ انسان اسلام سے خارج ہوتا ہے) سے کم تردرجے کا کفر ہے، کیونکہ گناہ کے تمام کام کفر اور جاہلیت ہیں اور ایسے شخص کو کافر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا ہے، اس کا ایمان کامل نہیں بلکہ وہ ناقص الایمان مومن ہے، یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہوگیا۔ دلیل اس کی زیر تفسیر آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث ہیں جو امام بخاری نے اپنی صحیح کی ”کتاب الایمان“ میں اور دوسرے ائمہ نے اپنی تصانیف میں ب یان فرمایء ہیں۔ اس آیت سے خوارج کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے جو کسی بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو، جس نے توبہ نہ کی ہو، کافر اور ابدی جہنمی سمجھتے ہیں اور معتزلہ کے عقیدے کی بھی جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ مومن ہے نہ کافر۔ انجام کے لحاظ سے وہ بھی اسے ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں۔ (5) ان فقاتلوا التی تبعی : تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، کیونکہ اس لڑائی کا حکم اللہ نے دیا ہے، اس لئے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے۔ اس حکم کے مخطاب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔ (7) حتی تقی الی امر اللہ :”تقی“ ”فاء یفی فیئاً“ (ض) لوٹنا، پلٹنا، یہ واحد مونث غائب مضارع معلوم ہے۔ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بات کتاب و سنت کی رو سے حق ہے باغی گروہ اسے قبول کرنے پر آماد ہوجائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باغی گروہ سے لڑتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ لڑنے سے مقصود انہیں صلح پر مجبور کرنا ہے، انہیں ختم کر نا یا ان کا نام و نشان مٹانا مقصود نہیں۔ (8) یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کی آپس میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی، چند موقعوں پر جھگڑا ہوا مگر نوبت ہاتھا پائی اور چھڑی جوتے سے آگے نہیں بڑھی۔ ان آیات کی عملی تفسیر اس وقت سامنے آئی جب علی ؓ کے عہد خلافت میں مسلمانوں کی آپ س میں لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے، جو قرآن و سنت کا علم بعد میں آنے والے کسی بھی شخص سے زیادہ رکھتے تھے، اس لئے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ایک اسوہ اور ضابطہ مرتبہ و گیا۔ اس طرح یہ جنگیں ناگوار اور نہایت تکلیف دہ ہونے کے باوجود خیر سے خالی نہیں رہیں، کیونکہ اگر یہ نہ ہوتیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ بعد میں آنے والے مسلمان آپس کی لڑائیوں میں ایک دوسرے پر کیا کیا ظلم و ستم کرتے۔ اس ضابطے کا ضروری خلاصہ یہ ہے : (1) جب لڑنے والے دو گروہ کسی مسلم حکومت کی رعایا ہوں اور عام مسلمان انہیں صلح پر آمادہ نہ کرسکیں تو ان کے درمیان صلح کرانا یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں زیادتی کرنے والا گروہ کون ہے، پھر طاقتکے ذریعے سے اس کو حق پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ (2) لڑنے والے دونوں فریق بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو تو اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور دونوں فریقوں کو اللہ کا خوف دلا کر جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ (3) مسلم حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے رعایا کا کوئی گروہ اگر اس کے خلاف خروج کرے تو اس کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کا متفقہ حکمران موجود ہو اور اس کے خلاف خروج کرنے والوں کے پاس خروج کے لئے شرعی دلیل اور حکمران کا کفر بواح یعنی کھلم کھلا کافر ہوجانا موجود نہ ہو، ایسے گروہ کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا ایمان والوں پر واجب ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو، کیونکہ عادل نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کوئی بھی گروہ کسی بھی وقت حکوت کے خلاف خروج کرسکتا ہے، جس کا نتیجہ افتراق و اتنشار اور کفار کو مسلمانوں پر حملے کی جرأت دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دوسری قسم ظالم حکمران کے خلاف خروج ہے، جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں اور خروج کرنے والا گروہ عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لئے اٹھا ہو اور اس کا ظاہر حال یہ بتارہا ہو کہ وہ نیک لوگ ہیں۔ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہوچکی ہو اور مملکت کا امن و امان اور نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو اس کے خلاف خرج کرنا حرام ہے، الایہ کہ وہ کفر بواح کا ارتکاب کرے، یعنی کھلم کھلا کافر ہوجائے۔ امام نووی نے اس پر اجماع کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض لوگ ایسے حکمران کے خلاف خروج کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اہل بیت کے بعض خروج کرنے والے حضرات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور بعض فقہاء کا نام بیھ لیا جاتا ہے جنہوں نے مسلم حکمرانوں کے لخا تلوار اٹھانے کو جائز قرار دیا، مگر محدثین اور جمہور فقہاء ان کے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں، بلکہ اسے یہ موقف رکھنے والوں کے لئے باعث طعن قرار دیتے ہیں کہ ”فلان کان بری السیف“ کہ فلاں صاحب مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کو جائز قرار یدتے تھے۔ امام احمد ابن حنبل اور دوسرے محدثین نے حکمران کے بےحد ظلم و ستم کے باوجود ان کے لخاف نہ خر وج کیا نہ خروج کو جائز رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ پوری تاریخ اسلام پڑھ جائیں کسی خروج کے نتیجے میں مسلمانوں کو تشت و انتشار اور کفار سے جہاد کے رک جانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، خواہ حکمران عادل تھا یا ظالم۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے حکمرانوں کے سامنے حق کہنے اور ان ک وصنیحت کرنے کی تلقین فرمائی، مگر ان کے خلاف خروج سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں، ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(من رای من امیرہ شیئاً یکرھہ فلیصبر، فانہ لیس احد یقارق الجماعۃ شبراً فیموت الا مات میتہ جاھلیۃ) (بخاری، الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالکم تکن معصیۃ :8133)”جو شخص اپنے امیر میں کوئی چیز دیکھے جو اسے بری لگے تو وہ صبر کرے، کیونکہ جو بھی شخص جماعت سے ایک بالشت جدا ہوا پھر فوت ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“ عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں :(دعانا النبی صلیا للہ علیہ وسلم فبایعناہ فقال فیما اخذ علینا ان بابعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا واثرہ علینا، وان لاننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفرا بواحاً عندکم من اللہ فیہ برھان) (بخاری، الفتن، باب قول النبی ﷺ :”سترون بعدی امور شکرونھا“:8066، 8056)”رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دعوت دی تو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم سے جو عہد لیا اس میں یہ تھا کہ ہم نے بیعت کی سننے اور اطاعت کرنے پر ، اپنی خوشیا ور ناخوشی میں اور اپنی تن گی اور آسانی میں اور اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیئے جانے پر بھی اور اس بات پر کہ ہم صاحب امر (حکمران) سے امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے، الایہ کہ تم صریح کفر دیکھو، جس کے متعلق تمہارے پاس اللہ کے ہاں واضح دلیل ہو۔“ (4) علی ؓ کا عمل اپنے خلاف جنگ کرنے والوں کو باغی سمجھنے اور ان سے لڑنے کے باوجود یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں، ان کے زخمیوں کو ق تل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھگانے والوں کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، ان کے اسیروں کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام نہیں بنایا جائے گا، بلکہ ان کی آبرو کی حفاظت ک کی جائے گی اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں دونوں فریقف ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے اور ایک دوسرے کا جنازہ پڑھتے تھے۔ احکام یک تفصیل اور دلائل کے لئے دیکھیے ”المغنی“ از ابن قدامہ میں ”کتاب قتال اھل البغی“ اور دسویر کتب فقہ۔ (9) فان فاء ت فاصلحوا بینھما بالعدل : زیادتی کرنے والے گروہ کے اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آنے پر دونوں گروہوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروانے کا حکم دیا، یہ نہیں کہ کسی فریق کی بےجا رعایت کرکے اور دوسرے کو دبا کر صرف لڑائی روکنے کے لئے صلح کروئای جائے، کیونکہ ایسی صلح نہ پائیدار ہتوی ہے، نہ اس سے آئندہ کے لئے لڑائی کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ اسلئے ایک فریق پر دوسرے کا جو حق ثابت ہوتا ہے وہ اسے دلا کر عدل کے ساتھ صلح کرواین چاہیے۔ 10۔ اقسطوا : یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے فرمایا : دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کروا دو ، پھر دوبارہ ”اقسطوا“ کہنے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ لڑائی کے موقع پر بعض لڑنے والوں کے لخاف دل میں شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے انسان دسرت فیصلہ نہیں کرسکتا، اس لئے تاکید کے لئے دوبارہ انصاف کا حکم دیا اور انصاف کرن والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کی نوید سنائی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے جملے میں لڑنے والوں کے درمیان علد کے ساتھ صلح کروانے کا حکم ہے اور ”اقسطوا“ میں اپنے تمام معاملات میں اصناف سے کام لینے کا حکم ہے۔ انصاف کیا ہے ؟ اس کے لئے دیکھیے سورة نحل (90) کی تفسیر۔ (11) ان اللہ یحب المقسطین : ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(سبعۃ یظلھم اللہ تعالیٰ فی ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ، امام عدل …) (بخاری، الزکوۃ، باب الصدقۃ بالیمین : 1323)”سات آدمی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ (سب سے پہلے جس کا ذکر فرمایا وہ ہے) عادل حکمران…“ عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان المقسطین عند اللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن عزوجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وما ولوا) (مسلم، الامارۃ ، باب فضیلتۃ الامام العادل …:1828)”انصاف کرنے والے اللہ کے پاس نور کے منبروں پر رحمان عزو جل کی دائیں جابن ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے گھر والوں میں اور جس کے ذمہ دار ہیں سب میں انصاف کرتے ہیں۔“
Top