Al-Quran-al-Kareem - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے نبی ! ایمان والوں کو لڑائی پر ابھار، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ایک سو ہوں تو ان میں سے ہزار پر غالب آئیں جنھوں نے کفر کیا۔ یہ اس لیے کہ بیشک وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ : اوپر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے، اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اس لیے یہاں دوبارہ اس جملے کو لا کر ساتھ مومنین کا بھی اضافہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی پیروی کرنے والے تمام مومنوں کو کافی ہے۔ ”وَمَنِ اتَّبَعَنَ“ میں واؤ کا عطف ”حَسْبُكَ“ کے کاف پر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والے مومنوں کو کافی ہے۔ یہ واؤ بمعنی ”مَعَ“ بھی ہوسکتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو مع آپ کے ساتھیوں کے سب کو کافی ہے۔ بعض لوگوں نے اس واؤ کا عطف لفظ ”اللّٰهُ“ پر ڈالا ہے، اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ تجھے اللہ کافی ہے اور وہ مومن کافی ہیں جو تیرے پیروکار ہیں، مگر یہ عطف اور ترجمہ سراسر غلط ہے، کیونکہ پورے قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرنے اور اسی کو کافی سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم ہے، فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ) توکل کا یہ حکم ”الْمُؤْمِنُوْنَ“ اور ”الْمُتَوَكِّلُوْنَ“ کے الفاظ کے ساتھ 9 جگہ ہے اور فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ) [ المائدۃ : 23 ] ”اور صرف اللہ پر بھروسا کرو، اگر تم مومن ہو۔“ مخلوق تو خود اپنے لیے کافی نہیں، وہ دوسروں کو کیا کفایت کرے گی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ؓ ایسے مواقع پر ایک شعر لکھا کرتے تھے ؂ سنبھلتا نہیں جن سے اپنا دوپٹا سنبھالیں گے کیا وہ کلیجہ کسی کا ابراہیم ؑ نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ نے احد کے بعد کفار کے جمع ہو کر دوبارہ حملہ آور ہونے کے موقع پر (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ) [ آل عمران : 173 ] کہا۔ [ بخاری، التفسیر، سورة آل عمران : 4563 ] رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ اور میرے ساتھی کافی ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا : (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ) [ التوبۃ : 129 ] ”پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دے مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسا کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِھٖ ۭوَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ) [ آل عمران : 160 ] ”اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے گا ؟ اور اللہ ہی پر پھر لازم ہے کہ مومن بھروسا رکھیں۔“
Top