Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaashiya : 3
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ
عَامِلَةٌ : عمل کرنے والے نَّاصِبَةٌ : مشقت اٹھانیوالے
محنت کرنے والے، تھک جانے والے۔
(1) عاملۃ ناصبۃ…: کافر دنیا میں جتنی محنت بھی کرے وہ قیامت کے دن گرد و غبار کی طرح اڑا دی جائے گی۔ (دیکھیے فرقان : 23) یہی حال دکھاوا کرنے والے اور سنت کو چھوڑ کر خود ساختہ عمل کرنے والے کا ہے کہ سخت محنت کے باوجود جہنم میں جائے گا۔ (دیکھیے سورة کہف کا آخری رکوع مع تفسیر) اسی مفہم کے پیش نظر ابن عباس ؓ عنہمانے ”عاملتہ ناصبۃ“ سے مراد نصاریٰ لئے ہیں۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، سورة (ھل اتاک حدیث الغاشیۃ) (بعد ح : 3831) نصرانی راہبوں کی شدید ریاضتیں مشہور ہیں، مگر وہ قیامت کے دن ان کے کسی کام نہیں آئیں گی۔ اسی طرح جو لوگ خود ساختہ ورد وظیفے یا عبادتیں کرتے ہیں یا اپنے بنائے ہوئے طریقوں پر عبادت کرتے ہیں، خواہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر کریں یا الٹے لٹک کر یا سانس بند کر کے کریں یا مشرکین کی طرح کسی مخلوق کا تصور باندھ کر کریں یا ضربیں لگا کر اتنی سخت مشقتوں کے باوجود وہ قیامت کے دن ذلیل ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(یرد علی یوم القیامۃ رھط من اصحابی فیجلون عن الحوص فاقول یا رب ! اصحابی فیقول انک لا علم لک بما احدثوا بعدک انھم ارتدوا علی ادبارھم القھقری فاقول سحقاً سحقاً لمن غیر بعدی) (بخاری، الرقاق، باب فی الحوض : 6585، 6585)”قیامت کے دن میرے ساتھیوں میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی، پھر انہیں حوض سے روک دیا جائے گا تو میں کہوں گا :”اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔“ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا :”آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں شروع کردی تھیں، بلاشبہ یہ لوگ ایڑیوں کے بل الٹے لوٹ گئے تھے۔“ تو میں کہوں گا :”پھر جس نے میرے بعد تبدیلی کردی اسے مجھ سے دور لے جاؤ، اسے مجھ سے دور لے جاؤ۔“ (2) تصلی نارًا حامیۃ :”حامیۃ“”حمی یحمی حمیاً“ (س)”النار“ (آگ کا سخت گرم ہونا) سے اسم فاعل مونث ہے، سخت گرم۔
Top