Anwar-ul-Bayan - Yunus : 37
وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۫
وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے هٰذَا : یہ۔ اس الْقُرْاٰنُ : قرآن اَنْ يُّفْتَرٰي : کہ وہ بنا لے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے بغیر وَلٰكِنْ : اور لیکن تَصْدِيْقَ : تصدیق الَّذِيْ : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَتَفْصِيْلَ : اور تفصیل الْكِتٰبِ : کتاب لَا رَيْبَ : کوئی شک نہیں فِيْهِ : اس میں مِنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے جو افتراء کیا گیا ہو اللہ کی طرف سے نہ ہو۔ بلکہ وہ ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے ہیں ' اور احکام ضرور یہ کی تفصیل بیان کرنے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے '
قرآن حکیم کی حقانیت پر واضح دلیل ‘ اور اس جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج توحید کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب کتاب اللہ کی حقانیت بیان فرمائی جس کے ذیل میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی مزید تصدیق ہوگئی۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے اول تو ان کی تردید فرمائی کہ یہ ایسی کتاب نہیں ہے کہ جو غیر اللہ کی طرف سے ہو یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے جو اس سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور جو احکام اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھیجے ہیں اس میں ان کی بھی تفصیل ہے۔ پھر ان لوگوں کو چیلنج کیا اور فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ قرآن اپنے پاس سے بنا لیا ہے تو تم اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ اور اللہ کے سوا ساری مخلوق میں سے اس مقصد کے لئے جس جس سے مدد لے سکتے ہو ان سب سے مدد لے لو۔ سورة بقرہ کی آیت (رکوع 3) (وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا) کی تفسیر کے ذیل میں اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ (انوار البیان ج 1) سورة ھود (رکوع 2) میں فرمایا ہے کہ تم اس جیسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ ‘ پہلے قرآن کے مقابلہ میں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج کیا گیا پھر ایک سورت تک بات آگئی ‘ آج تک کوئی بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی سورت بھی بنا کر نہیں لاسکا ‘ اور نہ کبھی لاسکیں گے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لاَ یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا) (آپ فرما دیجئے کہ اگر سارے انسان اور سارے جنات اس بات کیلئے جمع ہوجائیں کہ قرآن جیسا بنا کرلے آئیں تو نہیں لاسکیں گے اگرچہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہوجائیں) ۔ جب قرآن کی سچائی ثابت ہوگئی تو قرآن لانے والا یعنی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی سچائی بھی ثابت ہوگئی اس کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں نے ایسی چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علمی میں نہیں ہے۔ قرآن کو سمجھتے نہیں اور نہ سمجھنے کا ارادہ کرتے ہیں غور کرتے تو اس کی حقیقت اور حقانیت سمجھ میں آجاتی اب جبکہ جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں تو اس جھٹلانے کا نتیجہ دیکھ لیں گے۔ یعنی ان کی اس تکذیب کا برا انجام سامنے آئے گا۔ دنیا میں ذلیل اور ہلاک ہوں گے اور کفر پر مرنے کی وجہ سے آخرت میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے ‘ ان سے پہلے تکذیب کرنے والوں پر عذاب آچکا ہے۔ دیکھ لیجئے ان کا انجام کیا ہوا ؟ پھر فرمایا ان میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور کچھ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی ہے کہ آپ اپنا کام کئے جائیں۔ بہت سے لوگ وہ ہیں جنہیں ایمان لانا نہیں ہے آپ کو دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو ایمان نہ لائے گا اس کی سزا بھگت لے گا۔ اللہ تعالیٰ مفسدین کو خوب جانتا ہے۔ وہ ان کے کفر کی سزا دے دے گا۔ مزید فرمایا کہ یہ لوگ جو تکذیب پر مصر ہیں حجت قائم ہونے پر بھی حق کو نہیں مانتے اور آپ کی تصدیق نہیں کرتے تو آپ ان سے فرمادیجئے کہ میرا عمل میرے لئے ہے تمہارا عمل تمہارے لئے ہے۔ تم میرے عمل سے بری ہو میں تمہارے عمل سے بری ہوں مجھے میرے عمل کا ثواب ملے گا تم اپنی بد عملی کی سزا بھگتو گے۔
Top