Anwar-ul-Bayan - Hud : 32
قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰنُوْحُ : اے نوح قَدْ جٰدَلْتَنَا : تونے جھگڑا کیا ہم سے فَاَكْثَرْتَ : سو بہت جِدَالَنَا : ہم سے جھگڑا کیا فَاْتِنَا : پس لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : وہ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے (جمع)
وہ کہنے لگے کہ اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور تم نے ہم سے زیادہ جھگڑا کرلیا۔ لہٰذا ہمارے پاس وہ لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر تم سچے ہو۔
قوم کا مزید عناد اور عذاب کا مطالبہ ‘ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے اور انہیں سمجھاتے رہے۔ خوب سمجھایا اور بہت سمجھایا آپ جیسے جیسے ان کو سمجھاتے تھے وہ ضدو عناد میں آگے بڑھتے چلے جاتے تھے کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ کپڑے اوڑھ لیتے تھے تاکہ آپ کی آواز کانوں میں نہ پڑے ‘ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ تم ہم سے بہت جھگڑ لیے اور بہت زیادہ جھگڑا کرچکے جھگڑا بھی کرتے ہو اور یوں بھی کہتے ہو کہ تم نے توحید کو قبول نہ کیا اور شرک چھوڑ کر تنہا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں نہ لگے تو عذاب آجائے گا اب بات یہ ہے کہ جھگڑے چھوڑو عذاب ہی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ میں تو اللہ کی طرف سے مامور ہوں۔ عذاب کی وعید بھی میں نے اسی کی طرف سے سنائی ہے میں خود عذاب نہیں لاسکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ چاہے گا تو تم پر عذاب لے آئے گا اور جب عذاب آئے گا تو تم اسے عاجز نہیں کرسکو گے یعنی نہ عذاب کو دفع کرسکو گے نہ بھاگ سکو گے ‘ میں نے تمہیں بہت کچھ سمجھایا ‘ تمہاری خیر خواہی کی لیکن میری خیر خواہی کا تم اثر نہیں لیتے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ تمہیں گمراہی پر ہی رکھے (جس کی وجہ تمہارا عناد و استکبار ہے) تو میری نصیحت تمہیں کوئی کارگر نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے مالک ہے تم اس کے ساتھ شرک کر کے مجرم بنے ہوئے ہو اور پھر مرنے کے بعد بھی تمہیں اسی کی طرف جانا ہے ‘ اپنے مالک کے حقوق ضائع کرنے والے ہو دنیا میں بھی عذاب آسکتا ہے اور آخرت میں تو بہرحال منکرین کے لئے عذاب ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو جواب دے دیا کہ میں عذاب نہیں لاسکتا۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو عذاب لائے گا۔ پھر ان کے لئے بد دعا کردی اور پانی کے طوفان نے انہیں گھیر کر ہلاک کردیا جیسا کہ سورة نوح کے آخری رکوع میں مذکور ہے اور یہاں بھی آئندہ رکوع میں اس کا ذکرآ رہا ہے۔
Top