Al-Quran-al-Kareem - Hud : 32
قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰنُوْحُ : اے نوح قَدْ جٰدَلْتَنَا : تونے جھگڑا کیا ہم سے فَاَكْثَرْتَ : سو بہت جِدَالَنَا : ہم سے جھگڑا کیا فَاْتِنَا : پس لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : وہ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے (جمع)
انھوں نے کہا اے نوح ! بیشک تو نے ہم سے جھگڑا کیا، پھر ہم سے بہت جھگڑا کیا، پس لے آ ہم پر جس جس کا تو ہمیں وعدہ دیتا ہے، اگر تو سچوں سے ہے۔
قَالُوْا يٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا۔۔ : جب وہ نوح ؑ کے دلائل کے سامنے بےبس ہوگئے اور نوح ؑ ایک مدت دراز تک (950 سال۔ عنکبوت : 14) دن رات ایک ایک شخص کو اور پوری پوری مجلس کو (دیکھیے سورة نوح) اللہ کی توحید سمجھاتے رہے، نہ تھکے اور نہ ہمت ہاری تو بجائے اس کے کہ ان کی قوم ایمان لے آتی یا اللہ سے درخواست کرتی کہ اے اللہ ! اگر نوح ؑ کی بات سچ ہے تو اس کے لیے ہمارے سینے کھول دے، الٹا عذاب الٰہی لانے کا مطالبہ کردیا۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ شرک انسان کو عقل اور فطرتِ الٰہی پر چلنے سے کس حد تک محروم کردیتا ہے اور اس کی بھی کہ مشرک پرانے زمانے کا ہو یا آخری پیغمبر ﷺ کی امت کا، دونوں ایک ہی طرح عقل سے خالی ہوجاتے ہیں۔ دیکھیے ابوجہل اور مشرکین مکہ کی نبی ﷺ کے سچا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے دعا جو سورة انفال (32) میں مذکور ہے۔
Top