Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 3
وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًا١ؕ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہی وہ۔ جس مَدَّ الْاَرْضَ : پھیلایا زمین کو وَجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں رَوَاسِيَ : پہاڑ (جمع) وَاَنْهٰرًا : اور نہریں وَمِنْ كُلِّ : اور ہر ایک سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) جَعَلَ : بنایا فِيْهَا : اس میں زَوْجَيْنِ : جوڑے اثْنَيْنِ : دو دوقسم يُغْشِي : وہ ڈھانپتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لئے جو يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرتے ہیں
ور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلا دیا اور اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا فرما دیں اور ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسمیں پیدا فرمائیں اور رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو فکر کرتے ہیں۔
(وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ) (اور زمین میں ہر طرح کے پھلوں میں سے دو دو قسم کے پھل پیدا فرمائے) مثلاً بعض کھٹے ہیں ‘ بعض میٹھے بعض چھوٹے ہیں اور بعض بڑے کسی کا رنگ مثلاً پیلا ہے اور کسی کا رنگ ہرا ہے ‘ قال صاحب الروح ص 10 ج 13 جعل من کل نوع من انواع الثمرات الموجودۃ فی الدنیا ضربین وصنفین اما فی اللون کالابیض والاسود اوفی الطعم کالحلو والحامض او فی القدر کالصغیر والکبیراو فی الکیفیۃ کالحارو البارد فما اشبہ ذالک ‘ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : دنیا میں موجود تمام پھلوں کی دو دو قسمیں بنائیں یا تو رنگ کے اعتبار سے جیسا کہ سفید اور سیاہ یا ذائقہ کے لحاظ سے جیسے میٹھا اور کھٹایا مقدار کے لحاظ سے جیسے چھوٹا اور بڑایا کیفیت کے اعتبار سے جیسے ٹھنڈا اور گرم اور اسی طرح دیگر صورتیں چونکہ رنگ اور مزے دو سے زیادہ بھی ہوتے ہیں اس لئے بعض مفسرین نے فرمایا کہ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ میں تعداد انواع بیان فرمانا مقصود ہے، تعدد کا سب سے پہلا مرتبہ دو ہے اس لیے زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ فرما دیا لہٰذا یہ اس کے معارض نہیں کہ کسی پھل کے انواع کثیرہ ہوں ‘ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَ (اللہ تعالیٰ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے) یعنی دن کی روشنی کے بعد رات کو لے آتا ہے جس سے دن کی روشنی ختم ہوجاتی ہے ‘ جس طرح کسی روشن چیز کو کسی پردہ سے ڈھانپ دیا جائے اسی طرح رات ڈھانپ لیتی ہے۔ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو فکر کرتے ہیں) یہ جو کچھ باتیں بیان کی گئیں ان میں فکر کرنے والے فکر کریں اور یہ سوچیں کہ مذکورہ بالا چیزوں کی تخلیق اور ان کی ایجاد اور ان کا بقاء اور ان کی تسخیر اور ترتیب بغیر کسی متصرف کے نہیں ہے ‘ ان کا پیدا کرنے والا بھی ہے اور ان کو باقی رکھنے والا بھی ہے اور ان کو مسخر کرنے والا بھی ہے غور کریں گے تو خالق اور مالک کی الوہیت اور وحدانیت سمجھ میں آجائے گی۔ (وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرَاتٌ) (الایۃ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کی پیداوار کا تذکرہ فرمایا اس پیداوار میں جو عجائب قدرت ہیں ان کو بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا کہ زمین میں بہت سے قطعے ہیں۔ جو آپس میں ملتے ہیں ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے متصل ہے ان میں انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں بعض درخت ایسے ہیں کہ اوپر جا کر ایک تنے دو تنے ہوجاتے ہیں اور عام درختوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور بعض درخت ایسے ہیں جن کا آخر تک ایک ہی تنا رہتا ہے جیسا کہ کھجور کے درخت میں مشاہدہ کیا جاتا ہے ‘ ان باغوں اور کھیتیوں کو ایک ہی طرح کا پانی پلایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود مزوں میں مختلف ہوتے ہیں ‘ بعض پھلوں کو بعض دوسرے پھلوں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے ایک ہی زمین ہے ایک ہی جنس کے پھل ہیں لیکن مزہ میں مختلف ہوتے ہیں اور یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ کھاری زمین اچھی زمین سے متصل ہے اور دونوں میں درخت ہیں لیکن کھاری زمین کا اثر میٹھی جنس کے پھلوں میں نہیں آتا بلکہ خود کھاری زمین کے پھل بھی میٹھے ہوتے ہیں ‘ پھلوں کی میٹھی جنس کا مزاج زمین کے کھاری پن پر غالب آجاتا ہے ‘ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں سمجھداروں کے لیے نشانیاں ہیں) عقل والے غور کریں گے تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے خالق ومالک کو پہچان سکتے ہیں جو ان چیزوں میں اپنی سمجھ کو خرچ نہیں کرتے وہ اہل عقل ہی نہیں۔
Top