Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ
وَلَقَدْ كَذَّبَ : اور البتہ جھٹلایا اَصْحٰبُ الْحِجْرِ : حجر والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
'' اور بلاشبہ حجر والوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا
اصحاب الحجر کی تکذیب اور ہلاکت اور تعذیب ان آیات میں اصحاب الحجر کی تکذیب پھر ان کی تعذیب کا ذکر ہے اصحاب الحجر سے قوم ثمود مراد ہے یہ لوگ وادی حجر میں رہتے تھے قوم عاد کی بربادی کے بعد یہ لوگ زمین میں بسے اور پھلے پھولے طاقتور بھی بہت تھے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنالیتے تھے، سورة الفجر میں فرمایا (وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بالْوَادِ ) (اور قوم ثمود کے ساتھ تیرے رب نے کیا معاملہ کیا جنہوں نے وادی میں پتھروں کو کاٹا) اس بات کو یہاں سورة حجر میں یوں نقل فرمایا ہے (وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ ) (اور وہ لوگ پہاڑوں سے تراش کر گھر بنالیتے تھے۔ امن وامان سے رہتے تھے) ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا اور چونکہ ایک نبی کا جھٹلانا سارے نبیوں کے جھٹلانے کے مترادف ہے (کیونکہ تمام پیغمبروں کی دعوت ایک ہی ہے) اس لیے یوں فرمایا کہ اصحاب الحجر نے پیغمبروں کو جھٹلایا، ان کے سامنے حضرت صالح (علیہ السلام) نے توحید کے دلائل پیش کیے اور ان کا منہ مانگا معجزہ بھی ظاہر ہوگیا (یعنی پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی جسے ان لوگوں نے مار ڈالا) لہٰذا ایک دن صبح صبح ان پر عذاب آگیا، یہاں سورة حجر میں فرمایا ہے کہ ان کو چیخ نے پکڑ لیا اور سورة ہود میں بھی یہی فرمایا ہے اور سورة اعراف میں فرمایا (وَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ) (ان کو سخت زلزلہ نے پکڑلیا لہٰذا وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے) اور سورة حم سجدہ میں فرمایا ہے (فَاَخَذَتْھُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْھُوْنِ ) (سو انہیں ایسی سخت آواز نے پکڑ لیا جو اوپر سے سنائی دی جاتی ہے وہ سراپا ذلت کا عذاب تھی) تینوں جگہ کی آیات ملانے سے معلوم ہوا کہ رجفۃ (زلزلہ) صیحۃ (سخت چیخ) صاعقۃ (وہ سخت آواز جو اوپر سے سنائی دے) قوم ہود پر تینوں طرح کا عذاب آیا، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صاعقۃ سے مطلق عذاب مراد ہے اگر یہ معنی لیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ صیحۃ کو صاعقۃ سے تعبیر فرما دیا اور بمعنی عذاب مراد لے لیا واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ یہ لوگ بڑے غرور وتکبر سے رہتے تھے، دنیا پر دل دئیے ہوئے تھے اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے، اس لیے آخر میں فرمایا (فَمَآ اَغْنٰی عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) (سو ان کے کچھ کام نہ آیا وہ جو کچھ کسب کرتے تھے) قوم ثمود کا مفصل واقعہ سورة اعراف (رکوع 8) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ (انوار البیان جلد دوم)
Top