Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 52
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیقی ہم نے نازل کی اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف كِتٰبًا : ایک کتاب فِيْهِ : اس میں ذِكْرُكُمْ : تمہارا ذکر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لقد انزلنا الیکم کتباً یعنی قرآن ہم نے تمہاری طرف نازل کیا۔ فیہ ذکرکم متبدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ جملہ محل نصب میں ہے کیونکہ کتاب کی نعت ہے۔ یہاں ذکر سے مراد شرف ہے یعنی تمہارے لیے قرآن میں شرف ہے جیسے : و انہ لذکر لک ولقومک (الزخرف :44) پھر اس استفہام کے ذریعے انہیں متنبہ کیا جن کا معنی توقیف ہے فرمایا : افلا تعقلون۔ بعض علماء نے فرمایا : فیہ ذکرکم کا مطلب ہے تمہارے دین کے امر کا ذکر ہے تمہاری شریعت کے اس احکام ہیں اور اس میں ثواب اور عقاب کا ذکر ہے جس کی طرف تم نے لوٹنا ہے کیا تم غور نہیں کرتے ان چیزوں میں جو ہم نے ذکر کی ہیں۔ مجاہد نے کہا : فیہ ذکر کم کا مطلب ہے اس میں تمہاری بات ہے۔ بعض نے فرمایا : تمہارے مکارم اخلاق کا ذکر ہے تمہارے اعمال کے محاسن کا ذکر ہے۔ سہل بن عبد اللہ نے کہا : اس میں وہ عمل ہے جس میں تمہاری زندگی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ تمام اقوال ہم معنی ہیں۔ پہلا قول عام ہے کیونکہ یہ سراپا شرف ہے یہ کتاب ہمارے نبی کریم ﷺ کے لیے شرف ہے کیونکہ یہ آپ کا معجزہ ہے، یہ ہمارے لیے شرف ہے اگر ہم اس کے احکام کے مطابق عمل کریں اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : القرآن حجہ لک او علیک۔ قرآن تیرے لیے حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔
Top