Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 10
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیقی ہم نے نازل کی اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف كِتٰبًا : ایک کتاب فِيْهِ : اس میں ذِكْرُكُمْ : تمہارا ذکر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
بلاشبہ یقینا ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے، جس میں تمہارا ذکر ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا۔۔ : اس آیت میں کفار کی ان تمام پریشان کن باتوں کا اکٹھا جواب ہے جو وہ نبی ﷺ اور قرآن کے متعلق کہتے تھے کہ یہ خوابوں کی پراگندہ باتیں ہیں، یا من گھڑت باتیں ہیں، یا جادو ہے، یا شاعری ہے، تو فرمایا کہ قرآن کا ان میں سے کسی بات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ہم نے تو تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، تمہارے ہی حالات اور زندگی کے معاملات پر بحث کی گئی ہے اور انھی کے متعلق تمہاری راہنمائی کی گئی ہے۔ اس میں خواب، جادو یا شاعری کی کون سی بات ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟ ”فِيْهِ ذِكْرُكُمْ“ کا ایک معنی یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں یہ کتاب ساری دنیا میں تمہاری ناموری، شہرت اور عز و شرف کا باعث ہے، جیسا کہ دوسری جگہ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا : (وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ) [ الزخرف : 44 ] یعنی بیشک یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے عز و شرف کا باعث ہے۔ ذکر کا ایک معنی نصیحت بھی ہے، جیسے فرمایا : (وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ) [ الذاریات : 55 ] ”اور نصیحت کر، کیونکہ یقیناً نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔“ تو آیت کا ترجمہ یہ ہوگا ”بلاشبہ یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت کا سامان ہے۔“ آیت میں ذکر کے تینوں معنی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ ان میں کوئی باہمی تعارض نہیں۔
Top