Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
ان لوگوں کو اجازت دی گئی جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے،
جہاد کی اجازت اور اس کے فوائد، اصحاب اقتدار کی ذمہ داریاں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ نے دعوت کا کام شروع کیا آپ کی دعوت پر شروع میں ان لوگوں نے لبیک کہی جو دنیاوی اعتبار سے ضعیف تھے۔ ان حضرات کے پاس مال بھی نہ تھا اور ان میں وہ لوگ بھی تھے جو مشرکین کے غلام تھے اور بعض پر دیسی تھے مشرکین مکہ ان حضرات کو بہت بہت تکلیف دیتے اور بری طرح مارتے پیٹتے تھے حتیٰ کہ ان میں بہت سے حضرات حبشہ کو ہجرت کر گئے اور رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابہ کرام ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے پھر حبشہ کے مہاجرین بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے جب تک یہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے ان کو صبر کرنے کا حکم تھا جنگ کرنے کی اجازت نہیں تھی جب مدینہ منورہ میں مسلمان جمع ہوگئے اور امن کی جگہ مل گئی اور ایک مرکزی جگہ حاصل ہوگئی جس میں اپنا اقتدار بھی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیدی، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی ﷺ کو شہر بدر کردیا ہے یہ لوگ ضرور ہلاک ہونگے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت شریفہ (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ) (الآیۃ) نازل فرمائی حضرت ابوبکر صدیق نے آیت سن کر یوں فرمایا کہ میں آیت کے نازل ہونے سے سمجھ گیا کہ اب (مشرکین سے ہماری) جنگ ہوگی چناچہ ہجرت کے دوسرے ہی سال غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا اور باذن اللہ تھوڑے سے مسلمان کافروں کی تین گنا تعداد پر غالب آگئے اس کے بعد اگلے سال غزوہ احد کا معرکہ پیش آیا اور غزوات کے مواقع پیش آتے رہے اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے قدرت ہے کہ جس کی چاہے مدد فرمائے۔ مکہ مکرمہ میں وہ مسلمانوں کو کافروں کی ایذاؤں سے محفوظ رکھنے پر قادر تھا اور اس کے بعد بھی اسے قدرت تھی کہ جنگ کیے بغیر مسلمان مدینہ منورہ میں آرام سے رہیں اور دشمن چڑھ کر نہ آئے اور ان سے مقابلہ نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ مسلمان کے جان و مال اللہ کی راہ میں خرچ ہوں اور ان کو بہت زیادہ ثواب دیا جائے۔ مشرکین مکہ نے جو اہل ایمان سے دشمنی کی اور ان کو تکلیفیں دیں اور مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ حضرات اللہ کا نام لیتے تھے اللہ کو اپنا رب مانتے تھے دین توحید قبول کرلیا تھا کسی کا بگاڑا کچھ نہیں تھا کسی قسم کا کوئی جرم نہیں کیا تھا کافروں کے نزدیک ان کا صرف یہ جرم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوگئے
Top