Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 164
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ١ؕ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو فِيْ رَيْبٍ : شک میں مِّنَ : سے الْبَعْثِ : جی اٹھنا فَاِنَّا : تو بیشک ہم خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر مِنْ عَلَقَةٍ : جمے ہوئے خون سے ثُمَّ : پھر مِنْ مُّضْغَةٍ : گوشت کی بوٹی سے مُّخَلَّقَةٍ : صورت بنی ہوئی وَّ : اور غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ : بغیر صورت بنی لِّنُبَيِّنَ : تاکہ ہم ظاہر کردیں لَكُمْ : تمہارے لیے وَنُقِرُّ : اور ہم ٹھہراتے ہیں فِي الْاَرْحَامِ : رحموں میں مَا نَشَآءُ : جو ہم چاہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ ثُمَّ : پھر نُخْرِجُكُمْ : ہم نکالتے ہیں تمہیں طِفْلًا : بچہ ثُمَّ : پھر لِتَبْلُغُوْٓا : تاکہ تم پہنچو اَشُدَّكُمْ : اپنی جوانی وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ : کوئی يُّتَوَفّٰى : فوت ہوجاتا ہے وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ : کوئی يُّرَدُّ : پہنچتا ہے اِلٰٓى : تک اَرْذَلِ الْعُمُرِ : نکمی عمر لِكَيْلَا يَعْلَمَ : تاکہ وہ نہ جانے مِنْۢ بَعْدِ : بعد عِلْمٍ : علم (جاننا) شَيْئًا : کچھ وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْاَرْضَ : زمین هَامِدَةً : خشک پڑی ہوئی فَاِذَآ : پھر جب اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْهَا : اس پر الْمَآءَ : پانی اهْتَزَّتْ : وہ تروتازہ ہوگئی وَرَبَتْ : اور ابھر آئی وَاَنْۢبَتَتْ : اور اگا لائی مِنْ : سے كُلِّ زَوْجٍ : ہر جوڑا بَهِيْجٍ : رونق دار
اے لوگو ! اگر تم اٹھائے جانے کی طرف سے شک میں ہو تو بلاشبہ ہم نے مٹی سے پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر بوٹی بنی ہوئی صورت سے اور جو صورت ابھی نہ بنی ہو اس سے تمہیں پیدا کیا تاکہ ہم تمہیں بتائیں، اور ہم اپنی مشیت کے موافق مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہراتے ہیں پھر تمہیں اس حال میں نکالتے ہیں کہ تم بچہ کی صورت میں ہوتے ہو، پھر تاکہ تم اپنی قوتوں کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو اٹھا لئے جاتے ہیں اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو نکمی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد کچھ بھی نہ جانیں، اور اے مخاطب تو زمین کو بھی سوکھی پڑی ہوئی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور وہ بڑھ جاتی ہے اور ہر طرح کے خوش نما جوڑے اگا دیتی ہے
وقوع قیامت کے منکرین کو جواب اور تخلیق انسانی کے مختلف ادوار کا تذکرہ جو لوگ بعث کا یعنی مرنے کے بعد قبروں سے اٹھائے جانے کا انکار کرتے تھے اور قیامت کے وقوع میں انہیں شک تھا (اور اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں) ان کے شبہات میں سے ایک یہ شبہ تھا کہ جب مر کھپ گئے جسم ریزہ ریزہ ہوگیا تو اب زندہ ہونا، جسموں میں جان پڑنا، پورا آدمی بن کر کھڑا ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان لوگوں سے خطاب فرمایا کہ اے لوگو ! اگر تمہیں موت کے بعد دو بارہ اٹھائے جانے میں شک ہے تو تمہارا شک اور استبعاد غلط ہے اور بیجا ہے۔ تم دو بارہ اٹھائے جانے کو پہلی خلقت پر قیاس کرلو۔ دیکھو پہلے تمہارا وجود ہی نہیں تھا۔ اول تو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو ان کا مٹی کا مجسمہ بنایا۔ پھر اس مجسمہ میں روح پھونک دی۔ اس کے بعد ہم نے اولاد آدم کی پیدائش میں ایک ترتیب قائم کی اور اسی ترتیب سے بنی آدم کی نسلیں چل رہی ہیں کہ اول مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے تو پھر یہ نطفہ جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر اس میں تھوڑی سی قوت آتی ہے تو وہ بوٹی بن جاتا ہے یعنی جو اس لائق ہوجاتا ہے کہ اسے چبایا جاسکے۔ (یہ مضغہ کا ترجمہ ......؟ ) اور اس بوٹی کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ پہلے تو صرف ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس میں کوئی عضو بنا ہوا نہیں ہوتا۔ (اس کو غیر مخلقہ سے تعبیر فرمایا) پھر اس میں اعضاء بن جاتے ہیں اور انسانی شکل و صورت ظاہر ہوتی ہے (اس کو مخلقہ سے تعبیر فرمایا) اور اعضاء بننے کے ساتھ ہی پیدائش نہیں ہوتی بلکہ رحم میں پرورش ہوتی رہتی ہے اور جسم بڑھتا رہتا ہے۔ رحم میں رہنے کی بھی مدت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو جتنے دن چاہتا ہے ماں کے رحم میں رکھتا ہے۔ اسی کو فرمایا (وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآء الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا) (اپنی مشیت کے موافق ہم رحموں میں ٹھہراتے ہیں) پھر رحم میں رہنے کی مقررہ مدت پوری کرنے کے بعد ہم تمہیں زندہ بچہ کی صورت میں نکال دیتے ہیں۔ رحم سے باہر آنے کے بعد آگے مزید احوال سے گزرتا ہوتا ہے بچپن کا زمانہ گزرتا ہے۔ حتیٰ کہ جوانی آجاتی ہے اس کو فرمایا (ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ) (پھر تاکہ تم اپنی قوت کو پہنچ جاؤ) جسمانی طاقت عقل و فہم کی قوت اور سوچ سمجھ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ زمانہ اٹھارہ سال سے لے کر تیس سال تک کا ہے، اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے تیس سال سے لے کر چالیس سال کی درمیانی عمرمراد ہے۔ (و اختارہ فی الجلالین) سورة غافر میں (ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوْخًا) بھی فرمایا ہے (پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاتے ہو) باپ کے نطفے سے لے کر بوڑھا ہونے تک ان کے احوال سے تدریجاً گزرتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب پر یہ پورے احوال گزریں۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے مطابق ہوتا ہے۔ لوگ بعض پہلے ہی اٹھا لیے جاتے ہیں اور جوانی کا زمانہ آنے سے پہلے ہی انہیں موت آجاتی ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ بڑھاپا آنے کے بعد بھی عمر بڑھتی جاتی ہے اور یہاں تک بڑھتی ہے کہ نکمی عمر کا زمانہ آجاتا ہے۔ یہ نکمی عمر ایسی ہوتی ہے جس میں انسان کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ پہلے سے جو چیزیں اس کے علم میں تھیں وہ بھی ذہن سے غائب ہوجاتی ہیں۔ بس یوں ہی بھوک پیاس کی تھوڑی سی شدھ بدھ رہ جاتی ہے۔ یہ سب اطوار اور احوال سب کے سامنے ہیں۔ جس ذات پاک نے مٹی سے تخلیق فرمائی پھر مختلف احوال سے گزارا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ موت دے کر ہڈیوں کو ریزہ ریزہ بنا کر دو بارہ جسم مرکب فرما دے اور اس میں جان ڈال کر قبروں سے اٹھائے اور پھر میدان قیامت میں جمع فرما کر محاسبہ اور مواخذہ فرمائے۔ مُخَلَّقَۃ اور غیر مخلقہ کا ایک مطلب تو وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔ اور بعض مفسرین نے مخلقہ کا مطلب یہ بتایا ہے کہ بچہ پورا ہو کر زندہ پیدا ہوجائے اور غیر مخلقہ کا یہ مطلب لیا ہے کہ بچہ پورا ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے جسے حمل گرنا کہتے ہیں اور غیر مخلقہ کا ایک مطلب بعض مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ بچہ ناقص الاطراف زندہ پیدا ہوجائے الفاظ سے یہ معنی بھی قریب ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ جمع رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد چالیس دن علقہ یعنی جما ہوا خون رہتا ہے۔ پھر چالیس دن تک مضغہ یعنی گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے عمل اور اس کی اجل اور اس کا رزق لکھ دیتا ہے اور یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ یہ شقی ہے یا سعید ہے۔ (رواہ البخاری) قرآن مجید میں جو انسانی تخلیق کے ادوار اور اطوار بتائے ہیں ان کے بارے میں حدیث شریف میں بتادیا کہ چالیس چالیس دن تک ایک ایک حالت رہتی ہے۔ قبروں سے زندہ اٹھائے جانے کے استبعاد کو تخلیق اول کی یاد دہانی کی تذکیر فرمانے کے بعد (کہ جس طرح پہلے پیدا فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ دو بارہ پیدا فرما دے گا) دوسری نظیر بیان فرمائی کہ دیکھو زمین خشک ہوجاتی ہے۔ اس میں کسی طرح کی کوئی سبزی نظر نہیں آتی۔ نہ گھاس نہ دانہ۔ بالکل مردہ پڑی رہتی ہے۔ پھر ہم اس پر بارش نازل فرما دیتے ہیں تو اس میں ہری بھری گھاس نکل آتی ہے۔ بیل بوٹے پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہلہاتی ہوئی کھیتیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ جو زمین صرف مٹی تھی اب وہ بڑھ رہی ہے۔ اوپر کو اٹھ رہی ہے اور اس میں ہر قسم کے خوش نما پودے نکل رہے ہیں۔ جس طرح سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کردیا اسی طرح سے ہم انسانوں کو دو بارہ پیدا کردیں گے۔ سورة حم سجدہ میں فرمایا (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اے مخاطب تو زمین کو اس حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ سوکھی ہوئی پڑی ہے۔ پھر جب ہم اس پر پانی نازل کردیتے ہیں تو لہلہانے لگتی ہے اور اوپر کو اٹھ جاتی ہے۔ بلاشبہ جس نے اس زمین کو زندہ کیا وہ مردوں کو ضرور زندہ کرنے والا ہے۔ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے) یہاں سورة الحج میں بھی آیت کے ختم پر یہی فرمایا (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (یہ انسان کی ابتدائی تخلیق اور اس کے تدریجی ادوار اور زمین کا سوکھنا پھر اللہ کے حکم سے ہرا بھرا ہوجانا یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے۔ یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور وہ مردوں کو زندہ فرماتا ہے اور بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے) (وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا) (اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں) (وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرْ ) (اور بلاشبہ اللہ ان کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں) یعنی قبروں میں دفن کیے ہوئے لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے اور پھر میدان حساب میں حاضر کیے جائیں گے۔
Top