Ruh-ul-Quran - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اے پیغمبر ! آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ آپ اپنی پکار بہروں کو سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہیں
اِنَّـکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلاَ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَـآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ۔ وَمَـآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰـلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰـتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ (النمل : 80، 81) (اے پیغمبر ! آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ آپ اپنی پکار بہروں کو سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہیں۔ اور نہ آپ اندھوں کو ہدایت دینے والے ہیں ان کی گمراہی سے بچا کر، آپ تو اپنی بات انھیں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لائیں پھر وہ فرمانبردار بن جائیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی گزشتہ آیت میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا تھا کہ آپ ﷺ ان کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کریں اور نہ یہ خیال دل میں لائیں کہ ان کی مخالفتیں آپ ﷺ کے لیے ناکامی کا باعث بنیں گی۔ اصل طاقت اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے اور وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جو حق کی علمبرداری اور اس کی پاسداری کے لیے اٹھتا ہے۔ اس وقت حق کے نشان آپ ﷺ ہیں۔ آپ حق کے علمبردار بھی ہیں اور حق کے سراجِ منیر بھی ہیں۔ اس لیے آج اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت صرف آپ کے ساتھ ہے۔ اب اسی سلسلہ مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ کو اس بات پر بھی دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ لوگ آپ کی بات سن کے نہیں دیتے۔ اور آپ کی تمام تر ہمدردانہ اور غمگسارانہ مساعیِ جمیلہ کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر طلب ہدایت کا ایک داعیہ ودیعت فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جو شخص اس داعیہ سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہدایت کی مزید راہیں کھول دیتا ہے۔ اور جو شخص اس داعیہ کو غلط جگہ استعمال کرتا یا عدم استعمال کے سبب اسے بیکار کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے محرومی کا فیصلہ کردیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اس داعیہ سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں بصارت تو ہے لیکن دل کی بصیرت ان سے چھن گئی ہے۔ اور ہدایت کے لیے بصارت سے زیادہ بصیرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں یہ لوگ فطری صلاحیت سے محروم ہونے کے باعث اس قابل نہیں رہے کہ آپ کی تبلیغی کاوشوں سے ہدایت پاسکیں۔ جس طرح ایک مردہ حواس اور عقل سے محروم ہوجانے کے باعث ہر طرح کی چیز کو محسوس کرنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اسی طرح جو شخص دل کی بصیرت سے محروم ہوگیا وہ مردوں سے بڑھ کر مردہ ہے۔ تو آپ ایسے مردوں کو کیسے سنا سکتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص بہرہ ہے آپ چیختے رہیں وہ آپ کی بات سن نہیں پائے گا۔ ان کا حال تو اس سے بھی بدتر ہے، یہ صرف بہرے نہیں بلکہ ان کا حال تو یہ ہے کہ جب آپ انھیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں تو یہ پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، ایسے دل کے اندھوں اور ہدایت سے بھاگنے والے وحشت زدہ لوگوں کو آپ اپنی بات کیسے سنا سکتے ہیں۔ اور جب وہ آپ کی بات کو سننے سے ہی محروم ہیں تو وہ آپ کی بات کو قبول کیسے کرسکتے ہیں۔ اس لیے آپ کو ان کے ایمان نہ لانے پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا آپ کی کسی کوتاہی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی محرومی کا نتیجہ ہے جس کا سبب وہ خود بنے ہیں۔ ایمان لانے کے لیے تو دل میں ایمان کا ارادہ ضروری ہے اور جب کوئی شخص ایمان لانے کے ارادے سے طلب صادق لے کر آپ کے پاس آتا ہے تو وہ ایمان سے محروم نہیں رہتا، بلکہ اس کے ارادے میں اللہ تعالیٰ ایسی برکت دیتا ہے کہ وہ ایمان سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے اور اطاعت و فرمانبرداری بھی اس کے عمل کا حصہ بن جاتی ہے۔
Top